جدید سرمایہ دار مُعاشروں میں ترقی دو آزادیوں کے نتیجے میں ہوئی ہے۔ کاروبار کی آزادی اور ووٹ دینے کی آزادی۔ ہمارے مُلک میںایوب خان کے اقتدار پر غاصبانہ قبضے کے بعد یہ دونوں آزادیاں چھین لی گئیں۔ مارکیٹ اور پارلیمنٹ دونوں کو ہماری مُسلح افواج کی قیادت نے قبضے میں لے لیا اور نا حق کو حق کے نام پر رائج کر دیا-
اس طرح سے ایک جعلی ترقی ، جعلی جمہوریت اور جعلی احتساب کا نظام قائم ہوا جس میں سول بیورو کریسی اور سیاسی قائدین برابر کے شریک رہے۔ جن سیاسی جماعتوں اور لیڈروں نےاس جعلی نظام کی مُخالفت کی اُن پر غدار کا الزام لگا کر اُنہیں راستے سے ہٹا دیا گیا- غداری کا یہ تمغہ اقتدار غصب کرنے والے جنرل ایوب خان نے قائد اعظم کی بہن محترمہ فاطمہ جناح کو بھی عطا کیا۔ اور عوامی لیگ، نیشنل عوامی پارٹی اور کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کو بھی عطا ہوا۔ بلوچ سردار جن سے قرآن پر ہاتھ رکھ کر صُلح کی گئی تھی اُنہیں بھی غدار کہ کر پھانسی لگا دیا۔
عوام کو اس نظام کے خلاف لڑنے کیلئے اس جعلسازی کو سمجھنا اور اس کا توڑ کرنا ہو گا۔ کوئی ایک طلسمی شخصیت اس نظام کو اُکھاڑ کر پھینک نہیں سکتی۔ ہر گلی کوچے میں ظُلم کی ہر شکل کے خلاف لڑنا ہو گا۔ لڑنے کا مطلب شعلہ بیانی یا تشدد نہیں۔ جعلی اداروں کو تبدیل کرنا ہے۔ امریکی صدر روزویلٹ نے کہا تھا۔ گفتگو نرمی سے کریں لیکن ہاتھ میں چھڑی مضبوط رکھیں۔ ہم اپنی سیاسی گفتگو میں شعلہ بیانی تو کرتے ہیں مگر ہاتھ میں چھڑی ٹوٹی ہوئ ہے۔ ہمیں اپنی چھڑی مضبوط کرنے کے لئے کُچھ بنیادی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم ایک جعلی جمہوریت، ایک جعلی ترقی اور ایک جعلی بیانیے کے شکنجے میں آ چُکے ہیں۔ ہمیں کسی ایک پارٹی کی دوسری پارٹی کے ساتھ لڑائی کی دلدل سے نکل کر جعلسازی پر مبنی پورے نظام کو گرانا پڑے گا۔ اشرافیہ کے دھڑوں کی نُورا کُشتی سے نکل کر اشرافیہ کی مافیا سیاست کا خاتمہ کرنا پڑے گا۔ اس کے لئے جن بنیادی تبدیلیوں کے لئے ہمیں اُن پراپنی آواز اُٹھانی چاہئے اور ووٹ دیتے ہوئے انتخابی اُمیدواروں سے جن نکات پر کھُل کر وعدہ لینا چاہئے میرے خیال میں وہ یہ ہیں۔
سیاست
ہماری تمام سیاسی جماعتیں پرائیویٹ کاروبار بن گئی ہیں۔ سوائے جماعت اسلامی کے کسی سیاسی جماعت میں تواتر سے انتخابات نہیں کئے گئے۔ اس گھناؤنے کاروبار کو ختم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ تمام سیاسی پارٹیوں میں باقاعدہ انتخابات کروائے جائیں پارٹی کارکنوں کو پارٹی ٹکٹ دینے کا اختیار دیا جائے-
پارٹی عہدہ لینے والوں پر حکومتی عہدہ لینے پر پابندی لگائی جائے-
کمیونٹی ریڈیو اور پرائیوٹ ٹی وی کی طرف سے کارپوریٹ سماجی ذمہ داری کے تحت اُمیدواروں کو مباحثے کے لئے وقت دیا جائےتاکہ پیسے کی سیاست کمزور ہو سکے۔
فوج
دفاعی بجٹ اور مسلح افواج کی نفری میں 50 فیصد کمی کی جائے۔
ہائی سکول سے کالج میں داخلے کے درمیان تمام طالبعلموں کے لئے دو سال لازمی فوجی تربیت تاکہ پوری قوم دفاعی قوت بن جائے-
فوج کے تمام کاروباری اداروں اور DHAs کی نیلامی کر کے غیر مُلکی قرضوں کی ادائیگی کی جائے۔ فوجی افسران پر بیرون مُلک تمام اثاثے ظاہر کرنے کی قانونی پابندی عائد کی جائے۔
کاروبار
افغانستان، ہندوستان، اور ایران سے تجارت کھولی جائے۔ اعلیٰ تعلیم کے لئے طالب علموں کو پڑوسی ممالک کی یونیورسٹیوں اور کالجوں میں تعلیم کا موقع مہیا کرنے کے لئے خصوصی معاہدے کئے جائیں – تا کہ جعلی یونیورسٹیوں کا کاروبار ختم ہو اور تعلیم کا معیار بُلند ہو۔ یہ کام صرف HEC کے ڈنڈے سے نہیں ہو سکتا۔ بیرونی سرمائے کو دعوت دینے اور قرضوں کی بھیک اور قرض کے مال کی لوٹ مارختم کرنے کے لئےسپیشل اکنامک زون قائم کئے جائیں تاکہ بھتہ خوروں اور مافیا کا راج ختم ہو سکے ۔
مدرسے
دین کے نام پر فساد، تشدد اور انتقامی کاروائیاں روکنے کے لئے دینی مدارس میں طلبا کی ذہن سازی نہایت احتیاط سے کی جائے۔ نفرت اور تشدد پر اُکسانے والے نصاب اور اُستادوں پر پابندی لگائی جائے۔ ادب سکھانے کے نام پر طلبا کی مار پیٹ اور تشدد کو قابل دست اندازی پولیس بنایا جائے تاکہ نفرت اور تشدد کی جگہ علم کی طاقت کی بنیاد پر طلبا کی ذہن سازی ہو سکے۔
شہری
شہری اپنے حقوق لینے کے لئے منظم ہوں اور غاصبوں کی طاقت کا محاسبہ کریں۔ ووٹر یونین، ٹیکس دینے والوں کی یونین، بجلی اورگیس کے صارفین کی یونین اور اسی طرح مختلف شہری مفادات کا تحفظ کرنے والی تنظیمیں بنا کر ریاستی قوت کے نا جائز استعمال کا مقابلہ کریں۔ ترقیاتی منصوبوں اور تجارتی معاہدوں پر یونیورسٹیوں میں تحقیقی کام کو فروغ دیں اور واچ ڈاگ کی ذمہ داری سنبھالیں تاکہ شہری حکومتی اداروں کی جوابدہی کرنے کے قابل ہو سکیں۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں