دیوسائی کا میدان پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں سکردو اور استور ضلعوں کے درمیان ایک خوبصورت علاقہ ہے۔ اور نادر جنگلیحیات کی پناہ گاہ ہے۔ اس علاقے میں بھورے ریچھوں کی آبادی موجود ہے جو ان میدانوں کی کشش، سیاحوں کی دلچسپی اورتجسس کا باعث ہے۔ یہ سائبیریا سے بحیرہ عرب کی طرف سفر کرنے والے عقابوں کی گزرگاہ اور اُن کی سرمائی قیام گاہ بھی ہے۔آج سے تیس پہلے ہمالاین وائلڈ لائف فاؤنڈیشن کے ڈاکٹر انیس الرحمان اور وقار زکریا کو یہاں پر بھورے ریچھوں کے شکار اُن کینسل معدوم ہونے کی خبریں ملیں۔ بہت سے با اثر شکاری جو عقابوں کو پکڑنے کے لئے یہاں آتے تھے۔ مقامی گارڈز کی مُٹھی گرم کرکے یا افسران سے دوستانہ قائم کر کے غیر قانونی طور پر اُن کا شکار کرتے تھے۔ قانونی طور پر اس علاقے کو نیشنل پارک بنایا جاچُکا تھا۔ پارک کی حفاظت کے قواعد بھی بنا لئے گئے تھے اور عملہ بھی رکھ لیا گیا تھا۔ پھر شکار کیوں ہو رہا تھا۔
بھورے ریچھ کی اہمیت شکاریوں کے لالچ اور اُن کی عقل و فہم سے زیادہ تھی۔لیکن اُن کا مقابلہ کرنے کیلئے ایک بنیادی اصول کیپابندی لازمی تھی۔ جیسے کہ ڈاکٹر اختر حمید خان نے کہا تھا۔ غیر سرکاری تنظیم کا کام وکیل کا کام ہے۔ اُسے اپنا مقدمہ حکومتکے سامنے اسطرح پیش کرنا چاہئے کہ کسی مغالطے کی گُنجائش نہ رہے۔ اس لئے ہمالاین فاؤنڈیشن نے سب سے پہلے بھورے ریچھوںکی گنتی کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کام کی مہارت اور اس کے لئے مطلوبہ وسائل فاؤنڈیشن کے پاس نہیں تھے۔کَچھ تحقیق کے بعد پتہچلا کہ یہ مہارت جنوبی افریقہ کے محکمہ جنگلی حیات کے پاس موجود ہے۔ اُنہیں ریچھوں کی گنتی کرنی آتی ہے۔
ریچھوں کی گنتی کرنے کیلئے ہیلی کاپٹر پر بیٹھ کر ڈارٹ گن سے ریچھ کو نشانہ بنانا پڑتا ہے۔ ڈارٹ گن ایک ایسی بندوق ہوتی ہےجس میں لگی سوئی کے ساتھ نشہ آور دوائی کا سرنج لگا ہوتا ہے۔ جب بندوق سے یہ سوئی ریچھ پر داغی جاتی ہے تو نشہ آور دوااُس کے خون میں داخل ہونے کے تھوڑی دیر بعد ریچھ بیہوش ہو جاتا ہے۔ پھر ایک ٹیکنیکل ماہر اُس کے گلے میں ایک ریڈیو کالر لگادیتا ہے۔ اس کالر سے ریچھ کی مستقل حرکت کا پتہ چلتا رہتا ہے۔اس کے ساتھ ہی ریچھ کا ایک دانت نکال کر معائنے کے لئے رکھ لیاجاتا ہے۔ جس سے ریچھ کی عُمر جاننے میں مدد ملتی ہے۔ اس کام کے لئے ڈارٹ گن اور دوائی لینا تو آسان تھا۔ ہیلی کاپٹر لینا بڑا چیلنج تھا۔
فاؤنڈیشن نے مقامی فوجی یونٹ سے ہیلی کاپٹر کی درخواست کی اور وہ اس کام کے لئے بخوشی ہیلی کاپٹر دینے کے لئے تیار ہو گئے۔ دیوسائی کے پورے میدان میں گھومتے ریچھوں کو ایک ایک کر کے ڈھونڈا گیا۔ اُن کو ریڈیو کالر لگائے گئے اور اُن کی گنتی مکمل کی گئی۔ اس سے پہلے ریچھوں کے بارے میں طرح طرح کے اندازے تھے کُچھ لوگ کہتے تھے تین سو ریچھ ہیں۔ کُچھ اس سے کم یا زیادہ۔اس بنیاد پر یہ طے نہیں کیا جا سکتا تھا کہ بھورے ریچھوں کی نسل ختم ہونے کا خطرہ ہے یا نہیں۔ اور نہ ہی غیر قانونی شکار کرنےوالوں کو موقعے پر پہنچ کر پکڑا جا سکتا تھا۔ اب یہ دونوں کام آسان ہو گئے۔ اس گنتی میں پتہ چلا کہ دیوسائی میں صرف 26 ریچھ موجود تھے اور اُن کی نسل ختم ہونے کا خدشہ تھا۔ اور بین الاقوامی سیاحوں کے لئے اس علاقے کی کششش اور مقامی لوگوں کےلئے ٹور سٹ گائیڈ بن کر روزی کمانے کا ذریعہ دونوں پر اس کا اثر پڑنا تھا۔ ریچھوں کی گنتی ہو گئی تو مقامی حکومت کو اُن کے تحفظ کی اہمیت واضح ہوگئی۔
حکومت کی حمایت حاصل کرنے کے ساتھ ہی ہمالاین فاؤنڈیشن نے مقامی ٹورسٹ گائیڈز کی تربیت کا کام شروع کیا۔ اور اُنہیں بتایاکی ریچھ کا شکار کرنے سے زیادہ اُسے بچانے میں اُن کا اور مقامی آبادی کا بھلا ہے۔ کیونکہ سیاحوں کی آمد سے بے شمار مقامی لوگوں کے کاروبار بڑھیں گے۔ ہوٹل، رسٹورنٹ، مقامی دستکاریاں سب کو کام ملے گا۔ ریچھوں کو بچانے کی اس داستان سے ایک سبق واضح ہو گیا کہ تالی تین ہاتھوں سے بجتی ہے۔ عوام، ٹکنیکل، ماہرین، اور حکومت۔ عوام کی حیثیت مُدعی اور مالک کی ہے، ماہرین کا کام وکیل کا ہے۔ اور حکومت کا منصب جج کا ہے۔عوام کو وکیل اچھا ملے تو وہ مقدمہ جیت سکتے ہیں۔ عوام کی لڑائی جیتنے کا یہ سب سے کامیاب طریقہ ہے۔۔۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں