حق نا حق، ممتاز دانشور فیاض باقر کی سلسلہ وار تحریر، عورتوں کا عالمی دن: پروین رحمان کی یاد میں

اس سال عورتوں کے عالمی دن پر مُجھے اپنی دوست پروین رحمان کی بہت یاد آرہی ہے۔ پروین رحمان نے کراچی کی غریب آبادیوں کے لوگوں کے لئے اتنے بے مثال کام کئے کہ اُنہیں لوگ کراچی کی ماں کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ اُنہوں نے یہ دکھایا کہ اُجلے ذہن، کُشادہدل، اور قلم کی سیاہی سے اتنے بڑے کام کئے جا سکتے ہیں جو طوفانی جلسوں، لچھے دار تقریروں اور وزارتوں اور اونچے مناصب پربیٹھنے والے نہیں کر سکتے۔ پروین اونچے نیچے ہر سماجی رُتبے کے لوگوں سے یکساں طریقے سے ملتی تھیں۔ اُن کے چہرے ہر ہمیشہایک بے ساختہ مُسکراہٹ ہوتی تھی اور اُنہیں علم اور محنت کی قوت پر بھر پُور اعتماد تھا۔ اُنہوں نے روایتی تعلیم یافتہ لوگوں کے برعکس اپنے علم سے لوگوں کی خدمت کرنے ،اُنہیں انصاف دلانے اور لُوٹ کھسُوٹ کا خاتمہ کرنے کا طریقہ سیکھ لیا۔یہ کام اُنہوں نےاتنے اچھے طریقے سے کیا کہ 13 مارچ 2013 کو اُنہیں دفتر سے گھر جاتے ہوئے قتل کر دیا گیا۔ اُن کے قاتل ایک طویل عدالتی لڑائیکے بعد گرفتار ہوئے اور پچھلے سال اُنہیں رہا کر دیا۔ جو لوگ اس مُلک میں انصاف چاہتے ہیں اور کُرپشن کا خاتمہ کرنا چاہتے ہیں آجمیں اُنہیں پروین کے سادہ اور مؤثر طریقہ کار کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں۔ جب ہر گلی محلے کے نوجوان پروین کا بتایا ہوا سبقسیکھ لیں گے تو اس مُلک سے مافیا کا اقتدار ختم ہو جائے گا۔

پروین رحمان نے ایشین کولیشن فار ہاؤسنگ رائٹس کے اجلاس میں بات کرتے ہوئے ایک فقرے میں اپنے پیغام کا خُلاصہ کر دیا۔ اور کہاکہ ہم سب کو نقشہ بنانے والے ننجا ٹرٹل بننا چاہئے۔ یاد رہے کہ پروین رحمان آرکیٹیکٹ تھیں اور اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اُنہوںنے پیسے کمانے کی بجائے کراچی کی سب سے بڑی کچی آبادی اورنگی میں اختر حمید خان کی ٹیم ایک معمولی تنخواہ پر کام شرُوعکیا اور اگلے 33 سال یہی کام کرتی رہیں۔ وہ نقشے بناتی تھیں اور اپنی ٹیم سے بھی نقشے بنوانے کا کام لیتی تھیں۔ اُن کے ریکارڈمیں جو نقشے تھے وہ حکومت پاکستان، کراچی کی مقامی حکومت، ورلڈ بینک، ایشین ڈویلپمینٹ بنک اور اقوام متحدہ کے اداروں کےپاس بھی نہیں تھے۔ اُنہوں نے اُن نقشوں کے ذریعے علم کا جو خزانہ جمع کیا اور جو بڑے کارنامے انجام دئیے اُن کے آگے ان اداروںکے ماہرین کا علم سورج کے مقابلے میں چراغ رکھنے والے کا علم ہے۔ اب ذرا سُنئے نقشہ بنانے کی قوت کا کیا راز ہے۔

پروین نے جب اورنگی میں کام کیا تو اُسے پتہ چلا کہ پاکستان کی کچی آبادیاں جہاں غریب ترین لوگ رہتے ہیں وہاں لوگوں نے گلیوںمحلوں میں 90 فیصد انفرا سٹرکچر اپنے پیسوں سے بنایا ہوا ہے۔ اس سے تین نتیجے نکلتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ غیر مُلکی ماہرین جواس حقیقت سے ناواقف ہیں وہ غریب علاقوں میں ترقی کا جو بجٹ بناتے ہیں وہ ضرورت سے دس گنا زیادہ ہوتا ہے اور کُرپشن اورناقابل واپسی قرضوں کا ذریعہ بنتا ہے۔ اسی علم کی بنیاد پر پروین نے کراچی کی دوسری غیر سرکاری تنظیموں سے ملکر ایشیائی ترقیاتی بنک سے ملنے والا سو ملین ڈالر کا قرضہ منظور کروایا۔ دوسرے لوگوں کے بنائے ہوئے انفراسٹرکچر کو بہتر بنانے میں اُن کیرہنمائی کی جائے اور گلی محلے میں پانی کی فراہمی، نکاسی اور اسی طرح کی بنیادی ضرورتوں میں وہ اپنا حصہ ادا کریں تونہایت کم سرکاری بجٹ سے بیرونی انفرا سٹرکچر مکمل کیا جا سکتا ہے اور حکومتی بجٹ سے زیادہ وسیع پیمانے پر ترقیاتی کام کیاجا سکتا ہے۔ تیسرے یہ کہ نقشے کے ذریعے ایک گلی کے کام کو دوسری گلی کے کام سے جوڑا جا سکتا ہے اور لوگوں کو اکٹھا کر کےبڑے منصوبے مکمل کئے جا سکتے ہیں۔

کراچی کے ارد گرد صدیوں سے آباد بلوچ بستیوں کے لوگوں کے پاس اپنے علاقے، مکانات اور زمینوں کے نقشے موجود نہیں تھے۔ اسلئے سرکاری کاغذات میں اُن کا ریکارڈ نہیں تھا اور لوگوں کے پاس ملکیت کے کاغذات نہیں تھے- پروین نے دو ہزار دیہی بستیوں کےنقشہ جات بنوا کر اُن کے مکینوں کو ملکیت کے کاغذات دلوائے اور اُنہیں سرکاری ریکارڈ کا حصہ بنوایا۔ ان بستیوں پر قبضہ مافیاکی ہمیشہ نظر رہتی تھی اور وہ یہ بستیاں گرا کر اربوں مالیت کے کمرشل پلازے بنانے کے خواب دیکھ رہے تھے۔ ان کے قبضے کیروک تھام نقشے کے ذریعے ممکن ہوئی ۔

جنرل مشرف کے دور حکومت میں وفاقی وزیر ریلوے نے کراچی سرکلر ریلوے کے منصوبے کی آڑ میں ریلوے ٹریک کے ارد گرد ہزاروں گھروں کو گرانے کا عمل شروع کرنا چاہا- اُس کا قانونی جواز یہ بنایا کہ یہ گھر ریلوے کی 30فٹ کی حد میں موجود زمین پر بنائے گئے ہیں۔ اربن ریسورس سنٹر نے پورے علاقے کا نقشہ بنوایا تو بیسیوں ملٹی نیشنل کارپوریشنوں کے کئی منزلہ دفاتر انہی حدُود کےاندر پائے گئے۔ اُنہوں نے یہ نقشہ چھپوا کر لوگوں میں تقسیم کر دیا۔ لوگوں نے اس دھاندلی کے خلاف شور مچایا تو وزیر ریلوے کو پیچھے ہٹنا پڑا اور بیدخلیاں بند ہو گئیں۔

کراچی واٹر اور سیوریج بورڈ نے کچی آبادیوں کو پانی کی فراہمی کے نام پر ایشیائی ترقیاتی بنک سے اربوں روپے کا قرضہ مانگا۔پروین نے پانی کی تقسیم کے نظام کا نقشہ بنوایا تو پتہ چلا کہ 109 جگہوں سے پانی چوری ہو رہا تھا۔اُن میں ایک پولیس سٹیشنبھی شامل تھا۔ یہ پانی سستے داموں فیکٹریوں کو سپلائی کیا جا رہا تھا- واٹر مافیا فیکٹریوں سے بھی مال کماتا تھا اور پھر اپنےٹینکروں کے ذریعے کچی آبادیوں میں بھی پانی بیچتا تھا۔ یہ چوری بند کرنے اور پانی کا بل باقاعدگی سے وصول کر کے واٹر بورڈاربوں روپے سالانہ بچا سکتا تھا۔ اور قرضہ لینے کا کوئی جواز نہیں بنتا تھا۔

ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کہا کرتے تھے اے اللہ مُجھے علم نافع عطا فرما۔ پروین رحمان کا علم بھی علم نافع ہے۔ ہمارے مُلک کی ہر درسگاہ کواس علم نافع کی ضرورت ہے۔ اس کے نتیجے میں تحقیقی کام میں چور بازاری ختم ہو سکتی ہے۔ جعلسازی کے ذریعے قرضہ لینے کاکاروبار ختم ہو سکتا ہے۔ وسائل کی لوٹ کھسوٹ ختم ہو سکتی ہے۔ غربت میں کمی آ سکتی ہے اور پائدار ترقی آ سکتی ہے۔۔۔۔

close