حق نا حق، ممتاز دانشور فیاض باقر کی سلسلہ وار تحریر ، جعلی جمہوریت، مقامی حکومت اور ووٹرز یونین

مقامی حکومت کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ برطانوی راج نے بیسویں صدی کے شُروع میں مقامی حکومتخود اختیاری کا نظام قائم کر کے ہندوستانی سیاسی جماعتوں کو اقتدار میں شامل کرنے کا عمل شروع کیا۔ انگریزوں کو اس بات کااحساس تھا کہ صرف ڈنڈے کی بنیاد پر ہندوستان پر حکومت نہیں کی جا سکتی۔ ہندوستانی لیڈروں کو اقتدار میں حصہ دینا پڑےگا۔

اس سے پہلے 1852 میں برطانوی ڈائریکٹر پبلک انسٹرکشنز پنجاب نے اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ تعلیم کے لئے مقامی آبادیوںکی طرف سے قائم کئے گئے “وقف “ اداروں کی بنیاد پر قائم مقامی نظام جو مقامی وسائل سے چلتا تھا اور اُس کے ذریعے بچوں اوربچیوں کی سو فیصد تعداد تعلیم حاصل کرتی تھی۔ اسے ختم کرنے کے برطانوی فیصلے سے پنجاب میں تعلیم کا صفایا ہو جائیگا۔وہی ہُوا۔مقامی اداروں کے بغیر ترقی تو ہو ہی نہیں سکتی حکومتی نظام بھی نہیں چل سکتا۔

انگریز کی قائم کردہ ریاستی مشینری قانون پر عملدرآمد اور ٹیکس اکٹھا کرنے کے لئے بنائی گئی تھی ۔ ریاستی مشینری میں عاملوگوں کی خدمت اور ترقیاتی کام کرنے کے شعبے چند شہروں سے باہر کوئی پہنچ نہیں رکھتے تھے۔ اس کا اندازہ آپ آج اس طرح لگاسکتے ہیں کہ پنجاب جیسے خوشحال صُوبے میں 70,000 کاشتکاروں کی تکنیکی مدد کے لئے صرف ایک ایکسٹنشن ورکر موجود ہے۔ہماری ریاست عوام سے لینے کے لئے بنائی گئی تھی اُنہیں دینے کے لئے نہیں۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ اس خلا کو پُر کرنے کے لئے صرففوجی حکومتوں کے دوران مقامی حکومتوں کو زندہ کیا گیا اور سول حکومتوں نے اُنہیں میٹھی نیند سُلا دیا۔ فوجی حکومتوں کے دورمیں بنائی گئی مقامی حکومتوں میں قباحت یہ تھی کہ یہ سیاسی جماعتوں کے توڑ کے لئے بنائی گئی تھیں عوام کی خدمت کے لئےنہیں۔

ایوب خان اپنے غیر آئینی اور غیر اخلاقی اقتدار کو جاری رکھنے کیلئے عوام کے ووٹوں سے صدر بننا چاہتے تھے۔اس لئے اُنہوں نے80000 منتخب نمائندوں پر مشتمل بنیادی جمہوریت کا نظام کیا اور اُنہیں صدر منتخب کرنے کا حق دیا کیونکہ کروڑ وں ووٹروں کےمقابلے میں 80,000 کو قابو کرنا آسان تھا۔ضیا الحق صاحب نے بھی سیاسی جماعتوں کا پتہ صاف کرنے کیلئے مقامی حکومتوںکے غیر جماعتی انتخابات کروائے۔جنرل مُشرف اقتدار منتقل کرنے کے نام پر صوبائی حکومتوں کو اختیار دیے بغیر سیدھے مقامی حکومتوں کو اختیار منتقل کئے کیونکہ وہ مرکز سے براہ راست مقامی سیاست کو کنٹرول کرنا چاہتے تھے۔ جنرل مُشرف کی روانگیکے بعد آصف علی زرداری صاحب نے کمال ہوشیاری سے اٹھارویں ترمیم کے ذریعے سے اتفاق رائے سے مرکز سے صوبوں کو انتظامیاور مالی اختیارات منتقل کروائے لیکن مقامی حکومتوں کو نظر انداز کر دیا۔ وجہ ؟ کراچی کی مقامی حکومت۔ تر نوالہ ۔ ایم کیو ایمکے پاس تھی -کراچی کے بغیر حکومت کرنا قورمہ پلاؤ کے بغیر ضیافت کرنا تھا۔ معاملہ ابھی بھی وہیں اٹکا ہوا ہے۔ مقامی حکومتکے کاز کو آصف زرداری جیسا لیڈر نہیں مل سکا۔

مقامی ترقی کے لئے سیاسی ، مالی ، اور انتظامی اختیارات مقامی حکومت کو منتقل کروانا عوام کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ مقامیحکومت کے اختیار کے بغیر قائم سیاسی نظام نے ایک جعلی جمہوریت کی حیثیت اختیار کر لی ہے۔ لیکن ووٹرز کے پاس اس کا توڑموجود ہے۔ وہ پارٹی کے اندر الیکشن کروائے بغیر اور پارٹی ٹکٹ جاری کرنے کیلئے ووٹنگ کا حق ملے بغیر کسی بھی پارٹی امیدوارکو ووٹ دینے سے انکار کر سکتے ہیں ۔ اس کا ذریعہ ووٹرز یونین ہے۔ ووٹرز یونین اور متناسب نمائندگی کے ذریعے چھوٹی پارٹیاںاقتدار میں حصہ لے سکتی ہیں ۔ متناسب نمائندگی سے چھوٹی پارٹیوں کے اُمیدواروں کو اسمبلی میں نشست مل سکتی ہے۔ اورمنتخب اُمیدواروں سےتمام کام ووٹرز اپنی یونین کے ذریعے مقامی طور پرکروا سکتے ہیں۔ ووٹرز کی طاقت کی ایک دلچسپ کہانیپنجاب کے گاؤں ڈھوک سمندراں کے ووٹروں کی کہانی ہے ۔ ڈھوک سمندراں کے غریب ووٹر یونین کونسل کے اُمیدواروں کے جھوٹےوعدوں سے تنگ تھے۔ پھر اُنہیں ایک اچھُوتا خیال آیا۔ یونین بناؤ۔

ڈھوک سمندراں کے غریب لوگ گاؤں میں پانی لانے کا مطالبہ کرتے تھے۔ اُمیدوار وعدہ کرتے، منتخب ہو جاتے ، گاؤں کے امیر خاندانوںکے لئے سکیمیں بنوا دیتے پھر نظریں پھیر لیتے۔ اب غریب ووٹروں نے یونین بنائی اور کہا جو اُمیدوار پانی کی سکیم کا ایک تہائی زرضمانت کے طور پر جمع کرائے گا اُسے یونین کے ووٹ ملیں گے- اگر منتخب ہونے کے تین مہینے بعد سکیم منظور نہ کرائی تو زرضمانت ضبط ہو جائے گا اور اُس پیسے سے پانی کی سکیم شُروع کی جائے گی۔ باقی رقم لوگ خود جمع کر کے سکیم پر لگائیں گے۔انتخاب کے تین مہینے بعد جب سکیم منظور نہ ہوئی تو کونسلر کو تین مہینے کی مزید رعایت دی گئی۔ اسطرح ایک سال گزر گیا۔ یونیننے زر ضمانت ضبط کرنے کا فیصلہ کیا۔ کونسلر گاؤں کے با اثر لوگوں کے سامنے جا کر رویا دھویا۔ کسی نے بھی مدد کرنے سےانکار کر دیا۔ یونین نے ضبط شدہ رقم کی سرمایہ کاری کر کے مزید رقم حاصل کی اور اپنی سکیم مکمل کردی۔ جعلی جمہوریتحقیقی جمہوریت میں بدل گئی۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں