سرکاری افسروں کے بارے میں عام طور پر یہ رائے قائم ہے کہ یہ لوگوں کے کاموں میں روڑے اٹکاتے ہیں۔چائے پانی وصول کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ جب کسی افسر نے آپکا کام نہ کرنا ہو تو وہ بھی یہ بہانہ بناتے ہیں کہ کیا کریں ہم تو سرکاری مُلازم ہیں۔ لیکن اخلاق کی قوت، سرکار اور ہجوم کی قوت سے بڑی قوت ہے۔ ہمارے سرکاری افسروں میں لوگوں کی خدمت کرنے والے روشن ضمیر افسروں کی ایک طویل فہرست ہے۔ جنہوں نے لاکھوں تاریک گھروں میں اُمید کے چراغ جلائے۔ کسانوں کی آمدنی میں اضافہ کیا۔ بے گھر لوگوں کو ملکیت کے حقوق دلوائے۔ زمین کے کاغذات بنانے کے لئے بھتہ وصول کرنے کا نظام ختم کیا۔ صحت کی سہولیات مُفت مہیا کرنے کا نظام قائم کیا۔ اور پولیس کو لوگوں کی مدد کرنے کا طریقہ سکھایا۔ اور یہ ثابت کر دیا کہ غریبوں کی مدد کے لئے بڑے عُہدے کی نہیں بڑے دل کی ضرورت ہے۔
ان افسروں میں اختر حمید خان، شعیب سلطان خان، تسنیم صدیقی، ادیب رضوی، زبیر بھٹی اور امجد ثاقب کے نام شامل ہیں۔ ان کے علاوہ بے شمار گُمنام اور خاموش افسران بھی ہیں جنہوں نے کسی بھی مُشکل یا مسئلے کو کام چُرانے کا نہیں خدمت کرنے کا موقع سمجھا اور مسئلے کا حل نکال کر ہزاروں لوگوں کے لئے آسانی کا راستہ کھول دیا ۔ اُنہوں نے ہماری روایت میں موجود درد دل کو جاری رکھا۔ اور دوسروں کے درد کو اپنا درد سمجھا۔ اُنہوں نے اندھیروں کو کوسنے کی بجائے دئے جلانے کا کام کیا۔
ڈاکٹر امجد ثاقب کو سول سروس کے دوران غریبوں کو قرضے دینے کے ایک پروگرام کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ یہ پروگرام دیہی ترقی کے پروگرام کا حصہ تھا۔ اُنہیں یہ جان کر دھچکا لگا کہ غریب قرض داروں کو قرضے پر سُود لینا پڑتا تھا۔ قرضہ دینے والے اداروں کے پاس چھوٹے قرضوں پر سوُد لینے کے حق میں دو دلائل تھے۔ ایک یہ کہ سُود خور تو 200 فیصد تک سُود لیتے تھے لیکن غریبی مٹانے والے ادارے صرف 18 فیصد لیتے تھے جس میں انتظامی اخراجات بھی شامل تھے۔ دوسرے یہ کہ اگر قرض داروں سے سُود نہ لیں تو وہ قرض کی رقم بنک میں جمع کروا کر مُفت میں پیسہ کماتے رہیں گے۔ جب تک بنکوں میں سود کا نظام ختم نہ ہو غریبوں کو بلا سُود قرضہ نہیں دیا جا سکتا۔ اُن دلیلوں سے ڈاکٹر امجد ثاقب کے دل کی خلش دور نہیں ہوئی۔ اُنہوں نے چند دوستوں سے مشورے کے بعد خود ہی بلا سُود قرضے دینے کا کام شرُوع کرنے کا فیصلہ کیا۔
لاہور کی ایک غریب بستی سے کام شرُوع ہوا۔ ایک عیسائ خاتون نے پہلا قرضہ لیا۔ اُسے دس ہزار روپے قرض دیا گیا۔قرضہ لینے کے لئے کسی گرانٹ دینے والے غیر مُلکی ادارے سے ایک پیسہ بھی نہیں لیا گیا۔ یہ پالیسی طے کر لی گئی کہ آئندہ بھی ایسا ہی کیا جائے گا۔ قرضے کے لئے پہلی گرانٹ بھی ایک خاتون نے ہی دی تھی۔ پہلا قرضہ وقت پر واپس ہو گیا اور قرضہ لینے والی خاتون کی روزی میں اضافہ ہوا۔ اس کے بعد عطیات دینے والے لوگوں نے دل کھول کر امداد دی۔ اخُوت کا تجربہ کئی مُنفرد خیالات پر مبنی ہے۔ اس تجربے نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ دل اور ذہن کی وُسعت کام کے دائرے میں وُسعت پیدا کر دیتی ہے-
پہلی مُنفرد بات یہ تھی کہ اخُوت کا تصور مواخات مدینہ سے لیا گیا جب مدینہ کے مسلمانوں نے مکہ سے آنے والے مسلمانوں کو سرکار مدینہ کی ہدایت پر اپنی جائدادوں، مکانوں اور سرمائے میں حصہ دے کر اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے میں مدد کی تھی۔ دوسرے یہ کہ اخوت کے پروگرام کا مقصد صرف مالی غُربت ختم کرنا نہیں تھا بلکہ سماجی، روحانی اور اخلاقی غُربت کو ختم کرنا بھی تھا۔مالی غربت قرضے سے ختم ہو سکتی ہے۔ سماجی غربت قرضہ لینے والوں کو ساتھ بٹھا کر اُن میں دوستیاں قائم کر کے ختم ہوتی ہے۔روحانی غربت کردار میں مضبوطی پیدا کر کے ختم ہوتی ہے۔اور اخلاقی غربت لوگوں کو اُن کے حقوق کی تعلیم دے کر ختم ہوتی ہے۔ اخوُت اُن چاروں طرح کی غُربتوں کو ختم کرنے کے لئے لوگوں کی مدد کرتی ہے۔ اُنہوں نے نہ صرف قرضہ لینے والوں کے وقار اور خود داری کا احترام کیا بلکہ اُنہیں تعلیم دی کہ جب وہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہو جائیں تو دینے والے بھئ بنیں چاہے کتنی قلیل رقم بھی دوسروں کو قرضہ دینے کے لئے رضاکارانہ طور پر دے سکیں۔ اخوت سے قرضہ لینے والے ہر مہینے لاکھوں روپے دینے والوں میں شامل ہو گئے ہیں۔
جب دوسرے لوگوں کو اخوت کے پروگرام کا پتہ چلا اور اُنہوں نے مدد کرنا چاہی تو ڈاکٹر امجد ثاقب نے اُن کی حوصلہ افزائی کی کہ وہ اپنے شہر میں اپنے زیر انتظام اس مقصد کے لئے اپنے ادارے قائم کریں -اخُوت نے اپنے قرضوں کی مدد سے پشت ہا پشت اُجرتی غلامی میں بندھے خاندانوں کو آزاد کروایا۔ اور کئی غریب اور غیرتمند خواتین کو غُربت کے ہاتھوں مجبور ہو کر عصمت فروشی کے چُنگل میں پھنسنے سے بچایا۔جن لوگوں کو قرضہ دیا جاتا ہے اُنہیں صرف رقم ادا نہیں کی جاتی۔ اخوت کے کارکن اُن کے ساتھ بیٹھ کر بزنس پلان بھی بناتے ہیں۔ تاکہ وہ کامیاب کاروبار کر سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ اخوت کے قرضوں کی واپسی کی شرح 98 فیصد ہے۔
اخوت کا سب سے منفرد اور حیران کُن کام اپنے کام کے سکیل کو دُگنا کرنا تھا۔ جب حکومت کی طرف سے اخوت کو بڑی مقدار میں عطیہ ملا تو وہ اپنی شاخیں 70 سے بڑھا کر 159 تک لیجانے کے قابل ہو گئے۔اُنہوں نے ایک مینیجمنٹ کے ماہر سے رابطہ کیا۔اور کہا کہ ہم تین مہینے میں یہ کام پورا کرنا چاہتے ہیں۔ اُس نے کہا تُم نے 10 سال میں 70 شاخیں بنائی ہیں یہ 3 مہینے میں 150 کیسے ہونگی۔ یہ نا مُمکن ہے۔ اخوت نے اپنی ہر شاخ کے ذمے یہ کام لگایا کہ وہ ایک اور شاخ قائم کرنے کے لئے کارکنوں کی تربیت کریں۔ 3 مہینے میں اُن کے کام کی پہنچ دُگنی ہو گئی۔۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں