میرے اُستاد اختر حمید خان کہا کرتے تھے کہ پاکستان کا مسئلہ اقتصادی نہیں اخلاقی ہے۔ اور اخلاقی مسئلہ کیا ہے، چوری اور کام چوری۔ اس کا حل کیا ہے۔ عام آدمی کی عزت کریں۔ اُس سے سیکھیں اور اُس کو اپنا بوجھ اُٹھانے کا طریقہ سکھائیں۔ اُن سے جھوٹے وعدے نہ کریں اور گدھے کی طرح اُن کا بوجھ مت اُٹھائیں۔ عام آدمی کا گڈ ہ دلدل میں پھنس گیا ہے۔اُسے دھکا لگا کر ہموار راستے پہ لے آئیں آگے وہ خود روانہ ہو جائیگا۔ لیکن عام آدمی سے سیکھنے کا فن نہایت باریکی سے دیکھنے اور انکساری سے سیکھنے کا فن ہے۔ اُنہوں نے لوگوں سے سیکھنے کے دو انمول اصول بتائے اور اُن کے شاگردوں نے اُن اصُولوں پر چل کر بہت بڑے معرکے سر کئے۔ اختر حمید خان کے شاگردوں نے وہ کامیابیاں حاصل کیں جو کسی جلسے، جلوس یا لانگ مارچ سے حاصل نہیں ہو سکیں۔ بنگلہ دیش کے نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر محمد یونس بھی اختر حمید خان کے شاگردوں میں سے تھے۔
اختر حمید خان کہتے تھے کسی علاقے میں ترقی کے لئے آپ کام کا آغاز کریں اور لوگ آپ کی بات نہ مانیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ اُنہوں نے آپ کو رد کر دیا ہے۔ بلکہ اس کا مطلب انار کی ہے۔ اُنہیں آپ پر اعتماد نہیں اور آپ کی تجویز پر اعتماد نہیں۔ اس کا یہ مطلب ہے کہ آپ کے ہاتھ تو بندھے ہوئے نہیں لیکن ہر کوئی اپنی بات کہ سکتا ہے۔ جس بات میں جان ہو گی وہ اپنی جگہ بنا لے گی ۔ لیکن کُچھ لوگ ایسے ضرور ہوں گے جنہیں آپ کی بات سمجھ آجائے گی۔ آپ اُن کے ساتھ مل کر کام شروع کریں۔ اور اپنے کام میں کوئی نقص نظر آئے تو اُسے صحیح کریں۔ جب آپ کا تجربہ کامیاب ہو گا تو آپ پر شک کرنے والے لوگ بھی آپ کی طرف دوڑے چلے آئیں گے کیونکہ وہ پیچھے نہیں رہنا چاہیں گے۔ لیکن آپ نے صرف رہنمائی کرنی ہے اور اُنہیں کام سکھانا ہے۔ کام وہ خود کریں گے۔ تنظیم وہ خود بنائیں گے۔ آپ نے اُن سے ایک پیسہ بھی نہیں لینا۔ پیسے وہ خود اکٹھے کریں، خرچ کریں اور اُن کا حساب رکھیں۔
جن چیزوں کو ہم کُرپشن کہتے ہیں وہ بھی چوری اور کام چوری کی شکلیں ہیں جو ہمارے دائیں بائیں موجود ہیں لیکن ہم اُن پر توجہ نہیں دیتے۔چوری اور کام چوری کی وجہ سے اربوں روپے خرچ کر کے بننے والے سکول ، صحت مرکز، پانی اور نکاسی آب کی سکیمیں اور کچرے کی صفائی کی سہولتیں بند پڑی ہیں۔ اُنہیں بحال کرنے کے لئے نیب کے پاس جانے کی ضرورت نہیں۔ تین چیزیں چاہئیں ، نقشہ بنانا، لوگوں کی رائے سے کام کے معیار کے بارے میں جاننا اور لوگوں اور حکومت سے مکالمہ کرنا۔مکالمے کے بارے میں اختر حمید خان کی ایک ہدایت تھی کہ سماجی کام میں مونچھیں نیچی رکھنی پڑتی ہیں۔ اگر آپ مونچھیں نیچی نہیں رکھ سکتے تو پھر اس کام کو ہاتھ نہ لگائیں۔
اختر حمید خان کے ایک شاگرد نذیر احمد وٹو نے ان اصولوں کی مدد سے بھلوال میں کئی کروڑ روپے سے تعمیر شدہ ایک بند واٹر سپلائی سکیم کو بحال کروایا اور ایک پیاسے کنویں کو دوبارہ سیراب کردیا۔ اُن کا طریقہ کار نہایت سادہ، اور دلچسپ تھا۔میں نے یہاں لفظ پیاسا کنواں استعمال کیا ہے پیاسا کوا نہیں۔ کیونکہ پیاسا کوا تو پانی حاصل کرنے کا گُر جانتا تھا لیکن پیاسا کُنواں گُرو کی تلاش میں ہوتا ہے جو آکر پانی پئیے۔ نذیر وٹو کو جب بھلوال میں اُن کے ایک مہربان نے دعوت دی کہ ایک واٹر سپلائی سکیم بند پڑی ہے۔ اس کو بحال کرنے میں ہماری مدد کریں۔ تو اُنہوں نے سب سے پہلے ٹاؤن کمیٹی سے مُلاقات کی اور اُنہیں کہا کہ وہ مدد لینا چاہتے ہیں تو اُن کی ٹیم کے ممبروں کو کمیٹی کی عمارت میں دفتر دیں اور جب کام مُکمل ہو جائے تو اُن کی ٹیم سے معاہدہ کریں کو وہ واٹر سپلائی سکیم کے بل جاری کرنے، واجبات وصول کرنے کا کام کریں گے اور اس کا معاوضہ وصول کریں گے۔ اصولی طور پر یہ معاملہ طے ہوا تو اُنہوں نے کام شروع کیا۔
نذیر وٹو کی ٹیم نے پانی کی ٹینکی سے لے کر ہر گھر تک جانے والے پائپ کا معائنہ کیا اور پتہ چلایا کہاں کہاں ٹوٹ پھوٹ ہے، مال ناقص ہے، پائپ، مشینیں اور ٹینکی کام کر رہی ہیں یا نہیں۔ پھر پتہ چلایا کہاں کہاں چوری ہوئی اور کس نے کی۔ اور ٹھیکیدار سے ناقص مال اور کام کا معاوضہ لینے کے لئے بات کی۔ پھر ہر گھر کے رہائشیوں سے بات کی آپ کے گھروں پر میٹر لگا دیں تو آپ کو اتنا معاوضہ دینا پڑے گا جتنا آپ پانی خرچ کریں گے۔ جو زیادہ پانی خرچ کرے گا وہ آپ کے برابر بل نہیں دے گا۔ زیادہ دے گا۔اُن کی رضامندی سے میٹر لگوانے شروع کئے۔ پانی کی ٹینکی صاف کرائی۔ پانی کھینچنے والی موٹر چلوائی- پھٹے ہوئے پائپ تبدیل کروائے اور تمام گھروں کو مقررہ وقتوں میں پانی پہنچانا شروع کیا۔ مہینے کے آخر میں بل تھمائے تو لوگوں نے خوشی سے بل دینا شروع کردیے۔ وٹو صاحب کی انجمن سماجی بہبود کو کمیٹی نے اپنی عمارت میں مستقل دفتر دے دیا۔ اور اُنہیں اپنا کنٹریکٹر مقرر کر دیا۔ انجمن نے کام چوری کا توڑ کیا تو چوری کا توڑ بھی ہو گیا۔ اس طرح کی 4000 کے قریب سکیمیں اس وقت بند پڑی ہیں اور اُنہیں بحال کرنے سےکم از کم 10,000 لوگوں کو روزگار مل سکتا ہے۔ لاکھوں گھروں کو باقاعدگی سے پانی مل سکتا ہے۔ ہزاروں عورتوں کو دور دراز سے پانی لانے کی مشقت سے نجات مل سکتی ہے۔ لیکن یہ محنت، سُوجھ بوجھ اور حوصلے سے کرنے والا کام ہے اور یہ نعرے لگانے سے نہیں ہو سکتا اور نہ سرکار تن تنہا یہ کام کر سکتی ہے۔ عام مغالطہ یہ ہے کہ عوام حکومت کے بغیر نہیں چل سکتے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ حکومت عوام کے بغیر نہیں چل سکتی۔ نوجوان لوگوں کو اس کام کی بلا معاوضہ تربیت دینے کیلئے نذیر وٹو صاحب تیار ہیں۔ کوئی ہے پرچم تھامنے والا۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں