حق ناحق، فیاض باقر کی سلسلہ وار تحریر، پاکستان میں انڈہ توڑنے کا علم کون جانتا ہے؟

انڈہ توڑنے کے دو طریقے ہیں۔ انڈہ اندر سے ٹُوٹے تو اس کا مطلب ہے ایک نئی زندگی آگئی ہے۔ باہر سے توڑا جائے تو اس کا مطلب ہے زندگی ختم ہو گئی۔ بظاہر ایک ہی کام ہوا ہے، انڈہ ٹُوٹا ہے۔ لیکن دو متضاد نتیجے نکلے ہیں۔ پاکستان میں بھی ترقی، جمہوریت، انصاف اور بھلائی کے نام پر دو طرح سے کام ہو رہا ہے۔ ایک طرف وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں انڈہ مُجھے پکڑا دیں میں اسے توڑوں گا تو اندر سے چوزہ نکل آئیگا۔ چُوزہ نہیں نکلتا تو کہتے ہیں۔ انڈہ خراب تھا۔ یا ضرب صحیح نہیں لگائی ۔پانچ سال اور چاہئیں۔ یا ہر طرف بے ایمانی ہے۔ انڈہ تو ٹھیک ٹُوٹا تھا۔ چُوزے کو باہر نکلنے نہیں دیا گیا۔ لیکن انڈے کو صحیح حالات مہیا کئے جائیں تو چوزہ نکل آتا ہے۔

انڈے کو ایک خاص عرصے تک دھیمی تپش میں رکھا جائے تو اُس میں زندگی انگڑائیاں لینا شرُوع کرتی ہے۔ یہ کام ماؤں سے، ماؤں کی مُحبت اور اُمید سے ہوتا ہے۔ عبدالستار ایدھی کی ماں اور قدرت اللہ شہاب کی ماں کی کہانیاں میں نے سُنی ہیں۔ ایدھی صاحب کی اماں اُنہیں بچپن میں دو پیسے دیا کرتی تھیں۔ سستا زمانہ تھا دو پیسے میں جھولی بھر جایا کرتی تھی۔ کہتی تھیں باہر جانا تو ایک پیسہ اپنے پر خرچ کرنا ایک کسی ضرورت مند پر خرچ کرنا۔ اس دھیمی تپش سے وہ اپنے بچے کے دل میں محبت کی لو جلاتی رہیں۔ اُس بچے نے اپنا تن، من، دھن سب لوگوں کی خدمت میں لگا دیا۔ اور کُچھ کیا ہی نہیں۔ اور کبھی یہ سوچ کر دل چھوٹا نہیں کیا کہ میں کیا کر سکتا ہوں۔ میرے پاس حکومت نہیں، سرمایہ نہیں۔ نام نہیں ، برادری نہیں۔ سج دھج نہیں۔

قدرت اللہ شہاب کی اماں ہر جمعرات کو اُنہیں ایک پیسہ دیا کرتی تھیں۔ کہ بیٹا مٹی کے دئے میں تیل ڈالو اور مسجد میں ایک رات روشنی کر دُو۔ دیا جلانے کی تربیت نے اُن کے دل میں خلق خُدا کی خدمت کی لو جلا دی ۔ دوسرے سرکاری افسروں کے برعکس جب اُنہوں نے اپنے علاقے میں ایک انگریزی سرکاری افسر کا دربار لگایا تو لوگوں کو منع کر دیا کہ کوئی صاحب بہادر کو نذرانہ دینے کے لئے ڈالی لے کر نہیں آئے گا۔ سرکار کا کام لوگوں کو دینا ہے اُن سے لینا نہیں ہے۔ اُن کی ماں کی محبت اور خُدا ترسی نے ایدھی صاحب کی ماں کی طرح اُن کے دل میں محبت کی سوندھی تپش کا بیج بو دیا۔

ہم اپنے دیس میں اُجالا کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں بیج میں درخت دیکھنا سیکھنا چاہئے ۔ قطرے میں دجلہ دیکھنا سیکھنا چاہئے ۔ خاموشی، گُمنامی اور انکساری کے راستے بستیوں کو آباد ہوتے دیکھنا چاہئے ۔ آج پاکستان میں اُمید کے دئے جلانے کی جتنی ضرورت ہے پہلے کبھی نہ تھی۔ ہم خوف کے راستے پر چل نکلے ہیں۔ ہمیں اُمید کی روشنی چاہئے۔ یہ باہر سے نہیں آئیگی یہ ہمارے اندر موجود ہے۔ ہم اُس نبی کے ماننے والے ہیں جن کی شان میں ایک عقیدت مند نے کہا تھا

در دست نہ تیر است نہ بر دوش کمان است
ایں ساد گئی ہست کہ بسمل دو جہان است
ہمارے آقا نے دل کی سادگی سے دونوں جہان فتح کر لئے تھے۔ پاکستان کو اس وقت مرہم کی ضرورت ہے تیر و ترکش کی نہیں۔ ہم نے زندگی کی تپش کو قائم رکھنا ہے۔ خول خود بخود ٹوُٹ جائیگا۔ دلوں کے دروازے کھولنے کی ضرورت ہے بند کرنے کی نہیں۔

close