عمران خان صاحب نے ایک تفریحی جہاد کے ذریعے حکومت میں واپس آنے کی کوششوں کا آغاز کردیا ہے۔ اُن کی سیاست کو سمجھنے کے لئے کُچھ بنیادی سوال اُٹھانا ضروری ہیں-وہ اس لئے حکومت میں واپس آنا چاہتے ہیں تاکہ وہ “چوروں” کو پکڑ سکیں۔ حکومت میں آنے سے پہلے اُنہوں نے اعلان کیا تھا کہ وہ تین مہینے میں کُرپشن ختم کر دیں گے۔ چار سال میں وہ کُرپشن کے ایک بھی کیس کو عدالت میں ثابت نہیں کر سکے۔ اُن کا کہنا ہے کہ عدالتوں نے اُن کا ساتھ نہیں دیا۔ میڈیا نے اُن کا ساتھ نہیں دیا۔ فوج نے اُن کا ساتھ نہیں دیا۔ اُن کی اپنی پارٹی کے لوگوں نے جو لُوٹ مار کی اُنہوں نے اُس کی رپورٹ چھاپ کر اُنہیں بھی چھوڑ دیا۔ اُن کی پارٹی نے بھی اُن کا ساتھ نہیں دیا۔ لیکن وہ مُسلسل یہ کہتے رہے کہ میں نہیں چھوڑوں گا۔ اُن کو شکایت یہ ہے کہ انُ کے ہاتھ میں ڈنڈہ نہیں ہے۔ اُنہیں دوبارہ جلد انتخابات میں حصہ لینے کا موقع دیا جائے تاکہ وہ زیادہ نشستوں کے ساتھ حکومت میں آئیں اور ڈنڈے کے ذریعے مُلک کو سیدھا کریں۔
ڈنڈہ سیاست میں تین مسائل ہیں۔ ایک تو جمہوریت بات چیت، مذاکرات اور سودے بازی سے حکومت کرنے کا نام ہے اور وہ جمہوریت کے نام پر آمریت قائم کر نے کا حق نہیں رکھتے۔ اس طرح کی جھوٹ پر مبنی سیاست کو مہذب زبان میں میکیاولی کا طریقہ کہا جاتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ آپ کو اپنا مقصد حاصل کرنے کیلئے ہر طریقہ استعمال کرنا جائز ہے۔ آپ “سچ “ پر ہیں اور سچ کو بچانے کیلئے جھُوٹ بولنا پڑے تو یہ جائز ہے۔ “چوروں” کو پکڑنے کیلئے جھوٹا خط ایجاد کرنا پڑے تو جائز ہے۔ چاہے چوروں پر کسی عدالت میں کوئ جُرم ثابت نہ ہوا ہو آپ اُنہیں ملزم کی بجائے مُجرم کہتے رہیں۔ آپ کو پارلیمنٹ اپنے عہدے سے فارغ کر دے تو آپ پارلیمنٹ میں مقابلہ کرنے کی بجائے گھیراؤ کی دھمکیاں دیں اور جمہوری طریقے سے مخالفت کرنے کا طریقہ ترک کر دیں۔
ڈنڈہ سیاست میں دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ اگر سیاسی مسائل ڈنڈے سے ہی حل کرنے ہیں تو جو لوگ ڈنڈہ چلانا آپ سے بہتر جانتے ہیں آپ اُن سے مدد مانگیں گے اور سیاست اُن کے حوالے کر دیں گے۔ اور جمہوریت کی فتح کو شکست میں تبدیل کر دیں گے۔ تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ “چوری” کا مال واپس لانے کے لئے کاروبار کے قانون تبدیل کرنا پڑے گا۔ آپ کو پارلیمنٹ میں اس لئے بھیجا گیا تھا کہ آپ نئے قانون بنائیں۔ آپ نے چور بازاری روکنے کیلئے چار سال میں ایک قانون نہیں بنایا اور دو نعرے لگاتے رہے ہیں ۔ گھبرانا نہیں اور میں نہیں چھوڑوں گا۔ بات بالکل سیدھی سادی ہے۔ اگر مُلک میں کاروبار کرنا منافع بخش ہو گا۔ تو کوئی بھی کاروباری شخص مُلک سے باہر پیسے جمع نہیں کرائے گا۔ اگر آپ مُلک میں کُچھ اداروں کو ٹیکس میں رعایت دیں گے، یا اُن سے ٹیکس نہیں لیں گے۔ سستے قرضے دیں گے۔ اور دوسروں سے بھتہ لیں گے۔ اُن کے سر پر کاروبار ضبط کرنے کی تلوار لٹکائے رکھیں گے۔ تو مُلک سے سرمایہ باہر چلا جائے۔ چین، متحدہ عرب امارات اور ہندوستان میں دُنیا بھر کا سرمایہ آگیا ہے۔ کیوں کہ اُنہوں نے کاروبار کی حوصلہ افزائی کے قانون بنائے نعرے نہیں لگائے۔
اب خان صاحب نے کھیل کے میدان میں واپس آنے کے لئے لانگ مارچ کے ذریعے معصوم لوگوں کی زندگیوں کو داؤ پر لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ افسوسناک اور بے رحم سیاست ہے۔ اُنہیں حکومت میں واپس آنے کے لئے مقررہ وقت پر انتخاب لڑنا چاہئے لوگوں کی زندگیاں قُربان نہیں کرنی چاہئیں۔ اُنہیں میکیاولی کے “امپورٹڈ” نظریات کی بجائے اشوکا کے بیٹے کی انسان دوست سیاست کی مثال پر توجہ دینی چاہئے۔ ملا راجہ اشوکا کو جب ٹیکسلا کے راجہ نے ٹیکس دینے سے انکار کیا تو اُس نے اپنے بیٹے کو فوج دے کر ٹیکس وصولی کے لئے بھیجا۔ ٹیکسلا میں جب فوجیں آمنے سامنے آئیں تو اشوک کے بیٹے نے جنگ نہیں کی اور کئی دن خاموشی میں گُزار دئے۔آخر ٹیکسلا کے راجہ نے پیغام بھیجا کی جنگ کیوں نہیں کرتے- اشوکا کے بیٹے نے کہا جنگ ہوئی تو تُم جیتو گے یا میں جیتوں گا۔ مگر سینکڑوں بے گُناہ سپاہی دونوں طرف مارے جائیں گے۔ آؤ تم اور میں میدان میں آتے ہیں۔ ایک کو تخت ملے گا دوسرے کو تختہ۔خان صاحب دوسروں کو قربانی کا بکرا نہ بنائیں۔ خود بھُوک ہڑتال کریں۔ تخت لینا ہے تو اپنا سر داؤ پہ لگائیں۔ ورنہ پارلیمنٹ میں واپس جائیں۔۔۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں