حق ناحق، ممتاز دانشور فیاض باقر کی سلسہ وار تحریر، ڈاکو، سیاستدان، مافیا، روبوٹ اور سول سوسائٹی

ہمارے مُلک میں اشرافیہ کے مختلف دھڑے ، اُن کے نفسیاتی جنگ کرنے والے سیل اور اُن کے لائی لگ فینز کلب ایک دوسرے کو ڈاکو اور لٹیرے کے القابات دینے میں مصروف ہیں۔ اُن کے خیال میں جس طرح بعض کلمات کا ورد کرنے سے جن اُتر جاتے ہیں اُسی طرح دن میں ننانوے بار ایک دوسرے کی بد خُوئی کرنے سے رشوت کا جن اُتر جائے گا۔ ڈاکو اور لُٹیرے میری نظر میں بہت قابل احترام ہیں ۔ کیونکہ وہ جھُوٹ نہیں بولتے، زبان کے کھرے ہوتے ہیں – اُن کے دل اور زبان یکجان ہوتے ہیں ۔اُن کے کُچھ اصول ہیں جن پر وہ قائم رہتے ہیں چاہے جان بھی دینی پڑے -اور یہ لوگ عوام کی خدمت کے وہ کام کر رہے ہیں جو اشرافیہ کو کرنے چاہئیں۔مزید کُچھ کہنے سے پہلے میں دو واقعات بیان کر نا چاہتا ہوں۔

بلوچستان کے گورنر نواب اکبر بُگٹی کے مُشیر صوبدار معینوی ایک دفعہ ویگن پر اندرون سندھ سفر کر رہے تھے کہ ڈاکؤوں نے ویگن روک لی ، سب مسافروں کو قطار میں کھڑا کر دیا اور اُن سے حال احوال پوچھنا شروع کیا۔ صوبدار معینوی سے پوچھا تُم کیا کرتے ہو تو اُنہوں نے بتایا میں سیاستدان ہوں – ڈاکؤوں کے سردار نے قہقہہ لگایا اور کہا ہمارے ساتھ کام کرو یہاں بہت پیسہ ہے۔ اُنہیں ڈاکؤوں نے ایک دفعہ عبدالستار ایدھی کی ویگن دوران سفر روک لی۔ دوسرے مسافروں کی طرح اُن کا حال پوچھا تو اُنہوں نے کہا میں ایدھی ہوں۔ ڈاکؤوں نے نہ صرف اُنکے اور باقی مسافروں کے پیسے واپس کر دئے بلکہ معافی مانگی اور ایدھی صاحب کو چندہ بھی دیا۔کیا پاکستان میں اشرافیہ کے کسی ایک لیڈر کا نام لیا جا سکتا ہے جو ڈاکؤوں کے اخلاقی معیار پر پُورا اُترے۔ جس نے سرکاری خزانے سے لیا ہوا ایک پیسہ بھی واپس کیا ہو۔میں نے اپنی عُمر کا ایک قیمتی حصہ سیاست کرنے میں گُزارا، جان مال بھی داؤ پر لگایا لیکن میرے خیال میں ہماری اشرافیہ اور دھواں دھار تقریریں کرنے والے کتابی انقلابی اس مُلک کی قیادت کرنے کے اہل نہیں ہیں-

ماؤزے تُنگ نے انقلابی تبدیلی کے بارے میں ایک خوبصورت بات کہی تھی کہ اگر عوام کی کوئی پارٹی نہیں ہے تو عوام کے پاس کُچھ بھی نہیں ہے۔ ہمارے لیڈروں نے عوام کو روٹی، کپڑا، مکان ، انصاف اور عزت و احترام کے وعدے کئے ہیں – اُنہیں یہ سب کُچھ ملا بھی ہے مگر معزز عہدوں پر فائز ڈاکؤوں کے ذریعے نہیں- بدنام زمانہ مگر غریب پرور مافیا سے ملا ہے۔ میں نے کچے کے علاقے میں ، کچی آبادیوں میں، اور ریگستانوں اور پہاڑوں کے کُچے مکانوں میں رہنے والے محنت کشوں کی قیام گاہوں میں مہمان ہونے کا اعزاز بھی حاصل کیا ہے۔ اور مافیا کی کالک مُنہ پر ملے ہوئے لوگوں کو اُجلے دل کا مالک پایا ہے۔

ہمارے مُلک کے غریبوں نے غُربت مٹانے کے لئے دیہاتوں سے شہروں میں لاکھوں کی تعداد میں ہجرت کی اور مُلک سے بیرون مُلک جا کر غیر انسانی حالات میں پیسہ کمایا ۔ ڈاکٹر اختر حمید خان کہا کرتے تھے کہ اگر ترقی غریب کے پاس نہیں آتی تو غریب ترقی کے پاس چلا جاتا ہے۔ پچھلے ستر سال میں غُربت اسی طرح سے ختم ہوئی ہے۔ غریبوں نے اپنی جیب سے پیسے دے کر سیاہ دامن مافیا کی مدد سے کچی آبادیوں میں گھر بسائے، بیرون مُلک کام کے لئے ویزے حاصل کئے، چٹی دلالوں کے ذریعے تھانے اور کچہریوں سے “انصاف” حاصل کیا اور غیر مُلکی کمپنیوں کے دلالوں کے لئے گھروں میں مال تیار کر کے روزی کمائ۔ مافیا کو خدمتانہ دیا، سرکار کو بھتہ دیا۔ ان ڈائریکٹ ٹیکس کے ذریعے قرضہ خور مافیا کا قرض ادا کیا۔ اور اشرافیہ کی طرف سے مُلک کو بچانے کیلئے قربانی دینے کی لگاتار اپیلیں بھی سُن رہے ہیں۔ پڑھے لکھے لوگوں اور غربت کے خاتمے کے ماہرین کی زبان میں یہ لوگ ان سول سوسائٹی ہیں۔

بد قسمتی سے پاکستان کے لوگوں کی قیادت کا بہت بڑا حصہ ان سول سوسائٹی میں ہی ہے۔ یہ اہل دل ہیں ۔سول سوسائٹی میں بھی کُچھ اہل دل ہیں۔ جو دل کے کہنے پر لوگوں کے دائرے میں داخل ہوگئے ہیں -اور کُچھ ایسے بھی ہیں جن کے بارے میں لیاری کے ایک بزرگ نے کہا تھا کہ یہ روبوٹ ہیں سکہ ڈالو گے تو چلیں گے، سکے ختم ہو جائیں تو رُک جائیں گے۔

سب سے آگے اہل دل ہیں،

یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہو گی

اہل دل کے پیچھے عوام ہیں پھر قائدین ، ماہرین اور روبوٹ ہیں۔ دلدار سول سوسائٹی میں کام کرنے والے میرے ایک پیارے دوست نے کہا تھا کہ غُربت ختم کرنے کے لئے بہت بڑا دماغ نہیں بہت بڑا دل چاہیے۔ لوگ یہ نہیں دیکھتے کہ کس کی زبان اُن کے ساتھ ہے وہ یہ دیکھتے ہیں کہ کس کا دل اُن کےساتھ ہے۔ غریب آدمی کان سے سُن کر فیصلہ نہیں کرتا۔ دل پہ ہاتھ رکھ کر فیصلہ کرتا ہے۔پاکستان میں لڑائی نعروں، پرچموں، موسیقی کی دھُنوں اور گیتوں کے درمیان نہیں اہل دل اور اہل ہوس کے درمیان ہے۔ آپ تعلیم، نوکری ،سیاست، دوستی جو بھی کریں یہ سوچ لیں معاملہ کس سے ہے۔ دل والے ہر قدم پر آپ کے ساتھ ہوں گے اہل ہوس ہمیشہ کہیں گے “ انتظار فرمائیے ، مُلک/ تحریک ایک نازک دور سے گزر رہے ہیں”۔

ابن انشا نے خُوب کہا تھا

دیکھنے والی دیکھ کے چلنا تُم سب جھُوٹا سچا ہُو
ڈوبنے والی ڈُوب گئی وہ گھڑا تھا جس کا کچا ہُو

پاکستان کے غریب عوام اشرافیہ کی قیادت کر سکتے ہیں۔ پڑھے لکھے نوجوانوں کو اُن سے سیکھنا چاہئے۔ اُن کے علم سے ہی وہ دن آئے گا جب

جزا سزا سب یہیں پہ ہو گی یہیں پہ یوم حساب ہو گا

ہمیں نیا علم تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ اب بھٹیاں دہکنے کا وقت ہے۔ اب صرف روشنی نظر آنی چاہئے ۔

close