ناگزیر اتحاد سینئر صحافی سہیل اقبال بھٹی کا کالم

یہ قدرت کا کرشمہ ہے۔ اس میں ہم انسانوں کیلئے بہت بڑا سبق ہے ، کامیابی کا سبق ، آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کا سبق ہے۔ وی کی شکل میں پرواز کرنے والے گولڈن پلوور کی ہجرت کے طویل سفر میں وکٹری کا سبق ہے۔

اس وقت کرہ ارض پر جو قومیں یا ممالک ترقی یافتہ ہیں اور امن و خوشحالی سے اپنا سفر آگے بڑھائے ہوئے ہیں۔ ان کی ترقی اور خوشحالی کا راز بھی اتحاد و اتفاق ہے۔ امریکہ ، برطانیہ ،یورپ اور بعض عرب ممالک معاشی اور معاشرتی لحاظ سے اگر دنیا کو لیڈ کررہے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اندرونی طور پر مضبوط ہیں۔یہ ممالک انتشار و افراتفری کا شکار نہیں ہوئے۔ یہاں اقتدار اور طاقت کے حصول کیلئے سیاسی جنگیں نہیں لڑ جارہی ہے۔ یہ قومیں اس لئے بھی عروج پر ہیں کیونکہ انہوں نے اقتدار کی کرسی کیلئے قوم یا ملک کو داﺅ پرل گانے کی روش سالوں پہلے ترک کردی۔ دوسری جانب پاکستان ہے جسے وجود میں آئے ہوئے 75 سال ہوگئے مگر ہم آج تک دائرہ سے نکل ہی نہیں پائے۔ ہم نے اجتماعیت کے بجائے انفرادیت کو فوقیت دی۔ اتحاد و اتفاق کے تعلیمات کو بھلا دیا۔ حالانکہ اتحاد و اتفاق پر عمل کرنا ہمارے لئے نہ صرف اس جہاں کیلئے سودمند ہے بلکہ اس میں ہمارے لیے اگلے جہاں کی بھی فلاح ہے۔ ہم نے نہ دنیا کا سوچا نہ ہی آخرت کا۔ ہم نے قرآن کی وہ آیتیں بھلا دیں جن میں خالق کائنات بار بار اتحاد کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھنے کا حکم دیتا ہے۔ ہم نے بابائے قوم قائد اعظم کے فرمان اتحاد ،ایمان اور تنظیم کو بھی پس پشت ڈال دیا۔ پاکستان آج معاشی میدان میں دکے کھارہا ہے۔ سیاسی طور پر افراتفری اور انتشار کا شکار ہے۔ معاشرتی سطح پر نفرتوں اور عداوتوں کے زہریلے بیج تناور درخت بن چکے ہیں۔ ہم اخلاقی طور پربھی پستی میں گر چکے ہیں۔ قانون کا خیال ہے نہ آئین کا لحاظ۔ غیر یقینی صورتحال ، نفسا نفسی کا عالم ہے۔عوام پریشان اور مشکلات سے دوچار ہیں۔ کسی جانب بہتری کے آثارنظر نہیں آرہے ہیں۔ معاشی حالات سدھرنے کے دور دور تک امکان نہیں۔ ہم ایسی ٹنل میں بند ہوچکے ہیں جس کا دوسرے سرا ہے نہ روشنی دکھائی دے رہی ہے۔ سیاسی بحران کب ٹلے گا۔ اس پر بھی غیریقینی کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ ان سب حقائق کے باوجود بھی سیاست دان دست و گریبان ہیں۔ انا اور ضد کی آگ میں جل رہے ہیں۔ نفرتوں کو بڑھا رہے ہیں۔ معاشی اور سیاسی عدم استحکام کو مزید طول دے رہے ہیں۔ ملک کو انتشار سے دوچار کرنے والے لیڈر کا مقصد صرف کرسی کی چاہ ہے، اقتدار کی حوس اور چودھراہٹ ہدف ہے۔

اقتدار کے حصول کی خاطر سیاسی جماعت کے بچگانہ رویے نے ملک کا دیوالیہ نکالنے کے ساتھ ساتھ قوم کو بھی شدید مایوس کردیا۔ اپنے اقتدار کے کھیل کیلئے غریبوں کے بچوں کو عدالتوں میں جھونکنے والے لیڈر سے عوام دلبرداشتہ ہورہے ہیں۔ان کا سیاست سے اعتبار ہی ختم ہو رہا ہے۔ یہی حال اداروں کا ہے جہاں کوئی قل سیدھی نظر نہیں آرہی۔ حکومت اور اپوزیشن کی رسہ کشی میں سب رگڑے جارہے ہیں۔کیا سپریم کورٹ ، کیا محکمہ پولیس اور دیگر ادارے۔ ناقص کارکردگی پرایک دوسرے پر سبقت لیے جارہے ہیں۔

اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ہے کہ اگر پاکستان نے آگے بڑھنا ہے تو اتحاد کے سوا کوئی اور زینہ نہیں ہے۔ 2018ء میں پی ٹی آئی حکومت نے سی پیک سمیت مسلم لیگ ن کے دور حکومت میں شروع ہونیوالے کئی منصوبوں روک دئیے۔ نتیجتاً ان منصوبوں کی لاگت ڈبل ہوگئی۔ قومی خزانے کو بھی نقصان پہنچا اور ملکی معیشت کو بھی مطلوبہ ثمرات نہ مل سکے۔ اب وزیر خزانہ اسحاق ڈار ن نے ایک مرتبہ پھر میثاق معیشت کرنیکا مشورہ دیا ہے تاکہ آئندہ سیاسی رقابتیں قومی منصوبے اور ملکی ترقی کو متاثر نہ کرسکیں۔آپس کی دھینگا مشتی سے قومیں ترقی نہیں کرتی ہیں۔ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے چکر میں قدرتی وسائل سے مالامال ملک پیچھے جارہا ہے۔ گرفتاریوں ،الزام تراشیوں اور کھوکھلے دعووں سے غریب کا پیٹ بھرتا ہے نہ کہ قومی وقار میں کوئی اضافہ ہورہا ہے۔ گولڈن پلوور کی طویل پرواز ہمارے لیے بڑی مثال ہے۔ مل جل کر ہی ہم ترقی کا لمبا سفر طے کرسکتے ہیں۔ ایک دوسرا کا ہاتھ تھام کر ہی پاکستان کو قائداعظم اور علامہ اقبال کے حقیقی خواب کو شرمندہ تعبیر کرسکتے ہیں۔ نفرتوں کو مٹاکر اتحاد کی رسی تھام کرہی ملکی معیشت کا بیڑا پار کرسکتے ہیں۔ جس طرح بلوور کا گول ایک دوسری کی کی تھکن اور حرکت کا خیال رکھتے ہیں۔ قدرت کے اس نظام میں سمجھنے والوں کیلئے بڑی نشانی یہ ہے کہ بلند پرواز اور طویل سفر کیلئے اتحاد ناگزیر ہے۔ فطرت کے نظام میں کہیں کوئی جھول نہیں ہے ۔ کروڑوں سالوں سے کائنات کا نظام اسی لیے آج بھی برقرار ہے کہ ہر چیز اپنے دائرے مدار کے گرد چلتی ہے۔ پاکستانیوں کو خود کو بحیثیت قوم عالمی سطح پر اپنا نام اونچا کرنا ہے تو ہر ادارے اور ہر فرد کو اس کی اوقات اور اختیار کے مطابق چلنا ہوگا۔ ایک دوسرے کی ریڈ لائنیں کراس کرنے سے ہم پوری قوم کو تباہی و بربادی کی جانب دھکیلتے ہیں۔ قوم پر احسان ہوگا کہ ہرا دارہ اور ہر فرد اپنے دائرہ میں رہ کر کام کریں۔۔۔۔

close