گھٹا ٹوپ اندھیرا، سینئر صحافی سہیل اقبال بھٹی کا کالم

پاکستان میں ہر دور میں سیاست دانوں نے سختیاں برداشت کیں۔ جیل کی صعوبتیں اور مخالفین کے نشتر سہے لیکن انھوں نے آئینی حدود کبھی عبور نہیں کیں۔ سابق وزیراعظم و قائد نون لیگ میاں نواز شریف نے پاناما کیس میں اپنے ہی دور حکومت میں ایک سو سے زائد پیشیاں بھگتیں۔ نیب کے بلاوے آئے تونہ صرف خود پیش ہوئے بلکہ ان کی بیٹی مریم نواز نے عدالتوں اور نیب کے چکر کاٹے۔ میاں صاحب کی ہمسفر بسترمرگ پر تھیں تب بھی وہ عدالتوں کا احترام کرتے ہوئے پیشیاں بھگتے رہے۔ حتیٰ کہ کلثوم نواز کی موت کی وقت بھی انھوں نے لندن سے پاکستان آکر خود کو قانون کے حوالے کیا۔ نواز شریف کی سختیاں اور مشکلات زیاد پرانی نہیں لیکن کپتان جو ہر وقت انصاف، قانون اور آئین کی بالادستی کی خوشنما باتیں اور دوسروں کو پارلیمنٹ اور قانون کے احترام کا بھاشن دیتے ہیں،جب ان کو ایسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا تو معاملہ الٹ ہوگیا۔ نہ صرف قانون سے بھاگتے رہے بلکہ بار بار قانون کو روندنے کی بھی کوششیں کیں۔ جس کی وجہ پہلے سیاسی صورتحال تلخ ہوئی پھرخان صاحب کے اس رویہ نے دیگر معاملات کو بھی لپیٹ میں لیا اور بات اس قدر بگڑی کہ ملک آئینی بحران شکار ہوگیا۔حکومتی اتحادی جماعتوں نے تین رکنی بنچ کا بائیکاٹ کا اعلان کرتے ہوئے ایک اور خطرے کا بگل بجا دیا ہے۔

اس وقت تمام سیاسی پارٹیاں بند گلی میں داخل ہوچکی ہیں۔آئین پر ضرب پڑنے کا خدشہ ہے۔ محسوس ہوتا ہے کہ گیند سیاسی میدان سے نکل کرکسی اورکے کورٹ میں جانے والی ہے۔ ماضی میں بھی ایسی صورتحال کا فائدہ تیسری قوتوں نے اٹھایا اور اگر اس بار بھی ایسا ہوا تو سیاستدان ایک بار پھر ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔ پھر نہ کپتان کی بھڑکیں رہیں گی نہ فل کورٹ کے مطالبے۔ عمران خان جو اب بھی خود کو لاڈلا سمجھتے ہیں،ان کو اس صورتحال کی گھمبیریت کا احساس تک نہیں۔پہلے ملک کو مالی بحران میں دھکیلا۔ پھر خود کو ماورائے قانون اور آئین تصور کرتے ہوئے سیاست سے رواداری کا جنازہ نکالا۔ کاش سابق کھلاڑی خان صاحب نے اپنے ہم عصر اور ہم خیال سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غیر سیاسی کھیل کا ہی ایک بار جائزہ لیا ہوتا۔ چونکہ دونوں کی شخصیات اور سیاست میں بہت مماثلت ہیں۔ عمران خان نے کرکٹ کے میدان میں کامیابی حاصل کرکے سیاست میں آئے جبکہ ٹرمپ کامیاب بزنس مین کے طور سیاسی میدان میں اترے۔ دونوں کا مزاج جارحانہ ہیں جو اپنے فیصلوں کو ہی ٹھیک اور حتمی سمجھتے ہیں۔ دونوں دوسروں سے مشاروت کرنے کی صلاحیت سے عاری ہیں۔ کوئی خیر خواہ اچھی تجویز یا فائدے کی بات بھی بتائے تو اس کو اہمیت نہیں دیتے۔ ٹرمپ اور عمران خان نے اپنے دور اقتدار میں سیاسی مخالفین اور اداروں پر لفظی وار کیے اور سیاسی حریفوں کو مختلف کیسز میں پھنسا یا۔ دونوں سابق سربراہان جھوٹ بولنے، بد زبانی اور بد تمیزی میں خاص مقام بھی رکھتے ہیں۔

امریکا کے سابق صدر ٹرمپ اور پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان کی سیاست کا محور احتجاج اور جلاؤ گھیراؤ رہا اور اسی طاقت کے بل پر ریاستی اداروں پر حملہ آور بھی ہوتے رہے ہیں۔دونوں اقتدار سے آؤٹ ہوئے لیکن دوسروں کو زیر کرنے کی روش نہیں بدلی۔ حکومت تو دور اپوزیشن تک کرنی آتی نہیں لیکن دونوں کی آج بھی میں میں برقرار ہے۔ اداروں نے سپورٹ کیا تو واہ واہ، جب ان کی امنگوں کے مطابق نہ چل سکے تو برا بھلا کہہ کر چڑھائی کی۔

پاکستان میں ہر ادارہ اپنے آئینی اختیارات سے تجاوز کرکے دوسروں کے معاملات میں مداخلت کرتا ہے۔ یہاں ہر پاپولر رہنما کو کئی معاملات میں نہ چاہتے ہوئے بھی ایمنسٹی دی جاتی ہے۔ اسی لیے عمران خان کو سیاسی اور ایگزیکٹیو غلطیوں کی سزا نہیں ملی البتہ امریکا میں قانون کے ہاتھ واقعی لمبے ہیں اور یہاں قانون سے بالاتر ہے کوئی نہیں اس لیے ٹرمپ کو قانون شکنی پر قانون کے آہنی ہاتھوں مار پڑی۔ امریکا میں قانون کی بالادستی کی وجہ سے آج ڈونلڈ ٹرمپ عدالتی کٹہرے میں آ کھڑے ہوئے ہیں۔ قابل فکر بات یہ ہے کہ ٹرمپ اور خان صاحب کی نہ صرف سوچ ایک جیسی ہے بلکہ ان کی سیاست میں بھی کئی مماثلتیں ہیں۔ آج امریکا جیسی ترقی یافتہ اور مہذب قوم نے ڈونلڈ ٹرمپ کو یاد دلایا ہے کہ امریکا میں قانون کی بالادستی ہے جس سے سابق حکمران بھی مبرا نہیں۔ قانون کی حکمرانی پر قائم امریکی معاشرے نے تو ایسے شخص کو آئین اور قانون کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا لیکن عمران خان کب قانون کی بالادستی کو مانیں گے؟ کب انھیں اپنے کیے پر ندامت ہوگی؟ کب ان کو یہ ہوش آئے گا کہ کئی بحرانوں کی زد میں ارضِ پاک کو مزید بحرانوں کو دھکیلنے کا انجام تباہی کے سوا کچھ نہیں۔

تعمیر و ترقی میں امریکا کدھر ہے اور ہم کہاں ہیں، اس کی وضاحت کی ضرورت بالکل بھی نہیں ہے۔ امریکا میں اگرسیاسی و معاشی استحکام ہے تو اس کی وجہ آئین و قانون کی پاسداری ہے جبکہ پاکستان کی مشکلات کی بڑی وجہ طاقتوروں کے آئین اور قانون کو بالائے طاق رکھ کر کیے جانے والے اقدام ہیں۔ اگر پاکستانی معاشرہ بھی فیصلہ کر لے کہ آئین اور قانون کی بالادستی یقینی بنانی ہے تو عمران خان سمیت کوئی بھی سر پھرا جھوٹ اور ہٹ دھرمی کی بنیاد پر شر نہیں پھیلا سکے گا۔ پاکستان میں تمام بحران حل ہوسکتے ہیں وہ بھی قلیل وقت میں لیکن اس کے لیے اولین شرط یہ ہے کہ سیاست دان سنجیدگی اور بردباری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملک مفاد کا سوچیں کیونکہ ملک ہے تو ان کی سیاست باقی ہے۔ عوام کی مفاد کے خاطر نہ سہی کم سے کم اپنی سیاسی بقا کے لیے ہی ایک پیج پر آئیں اور ملک کو بحرانوں سے نکالنے کی مشترکہ کوششیں کی جائیں۔ اداروں کو بھی اپنے اختیارات سے تجاوز کرنے کا نشہ اب ترک کرنا ہوگا ورنہ کشکول ہماری جان چھوڑے گا اور نہ ہی گھٹا ٹوپ اندھیرا چھٹے گا۔

close