اور اب آزادی مارچ سینئر تجزیہ کار ارشاد محمود کا کالم

پاکستان تحریک انصاف کی لیڈر محترمہ شیریں مزاری کی گھر کے باہر سے ڈرامائی گرفتاری اور رہائی نے یہ ثابت کردیا کہ حکمران اتحاد اور ان کی پشت پناہ قوتوںکے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے۔ تنقید برداشت کرنے کایارانہ نہیں ۔سیاسی مخالفین کونشان عبرت بنانے پر تل چکے ہیں۔ جوشیلے اور عقاب صفت وزیرداخلہ رانا ثنا اللہ کا دل عمران خان کو ہتھ کڑیوں میں جکڑنے کے لے مچل رہاہے۔الفاظ چبائے بغیر بات کرنے والے وزیرداخلہ کہتے ہیں کہ میری خواہش ہے کہ عمران خان کو جیل کے اسی سیل میں رکھوں جس میں انہیں رکھا گیا تھا۔وہ فقط ’’اجازت‘‘ کے منتظر ہیں۔غالباً راناثنا اللہ کی طرح ہی کے ہمدردوں کے لیے شاعر نے کہا تھا:
ہوئے دوست تم جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو ۔
شیریں مزاری ایک بے باک اور نڈر خاتون سیاستدان اور دانشور ہیں۔ قائداعظم یونیورسٹی میں برسوں پہلے وہ پروفیسر تھیں اس وقت بھی ڈٹ کر قومی امور پر رائے دیتی تھیں۔ سیاسی خیالات کا اظہار ہمیشہ بابانگ دہل کرتی آئی ہیں۔ ان کی سیاسی اور بین الاقوامی امور پرفکرکا خمیر سخت گیر پاکستانیت سے اٹھا ہے۔ امریکہ، بھارت اور اسرائیل کے حوالے سے ان کے جذبات اورخیالات دائیں بازورکی جماعتوں سے زیادہ ہم آہنگ ہیں۔تاہم ان پر کبھی بھی اور کسی بھی سطح پر کرپشن یا اختیارات کے ناجائر استعمال کا الزام نہیں لگا۔ وہ جہاں بھی رہیں ملک اور قوم کی خدمت کے جذبے سے سرشار رہی ہیں۔سرکاری اہلکاروں نے انہیں گرفتار کرکے نہ صرف اپنی نیک نامی پر دھبہ لگایا بلکہ مخلوط حکومت کی سیاسی بے بصیرتی کا جنازہ بھی نکال دیا۔ایسا ہی ایک تماشا کچھ دن پہلے پنجاب حکومت نے سیالکوٹ میں پی ٹی آئی کا جلسہ روکنے کی کوشش کرکے لگایا لیکن دال نہ گلی۔ اسی دن ایک بڑا جلسہ برپا ہوا اور مخلوق خدا ہجوم درہجوم جلسہ گاہ کی طرف ڈورپڑی۔
اطلاعات ہیں کہ پی ٹی آئی کے دفاتر اور رہنماؤں کی معلومات مقامی پولیس اسٹیشن جمع کرچکے ہیں تاکہ لانگ مارچ سے قبل ہی انہیں گھروں سے ہی اٹھا لیا جائے۔واضح نظر آتاہے کہ حکومت لانگ مارچ کے اعلان سے بری طرح گھبرائی ہوئی ہے۔ شدیدگرمی میں لوگوں نے عمران خان کا جس طرح والہانہ استقبال کیا وہ غیر معمولی سیاسی کامیابی کہلائی جاسکتی ہے۔ اولیا ء کے مسکن ملتان میں تاریخی جلسہ ہی نہیں ہوا بلکہ جلسے کے باہر بھی ایک جلسہ برپا تھا۔ عوامی رجحان سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ عمران خا ن کا بیانیہ نہ صرف قبولیت عام حاصل کرچکا ہے بلکہ عوام شریف زرداری حکومت سے کوئی امید نہیں رکھتے۔
اسلام آباد آزادی مارچ یا لانگ مارچ بقول عمر ان خان کے موجودہ حکومت کے خاتمہ کے بغیر واپس لوٹے گا نہیں۔ہر شام ایک جلسہ ہوگا ۔ ماضی کے دھرنے کے برعکس اس وقت عمران خان کی تین حکومتیں اسلام آباد کے گردونواح میں قائم ہیں۔ اسلام آباد سے محض چند کلومیٹر کی ڈرائیو پرخیبر پختون خوا شروع ہوجاتاہے جہاں تحریک انصاف گزشتہ نو برس سے حکومت کررہی ہے۔ ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت پر آزادکشمیرہے جہاں حال ہی میں وزیراعظم سردار تنویر الیاس کی سربراہی میں تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوئی۔ گلگت بلتستان میں بھی تحریک انصاف برسراقتدار ہے۔ گلگت بلتستان کے لاکھوں شہری راولپنڈی اور اسلام آباد کے گردونواح میں پائے جاتے ہیں۔ ان تین حکومتوں سے تھوڑی بہت بھی کمک پی ٹی آئی کو دستیاب ہوئی تو لانگ مارچ اور دھرنا نہ صرف کامیاب ہوگا بلکہ موسم کی شدت کے باوجود بھی اپنا رنگ جمائے گا۔لانگ مارچ کی کامیابی کے امکانات اس لیے بھی روشن ہیں کہ حکومت عوام کو ریلیف دینے میں بری طرح ناکام ہوچکی ہے۔وزراء ٹیلی وژن چینلز پر اسٹبلشمنٹ سے بھیک مانگ رہے ہیں کہ وہ تیل کی قیمتیں بڑھانے کی ذمہ داری میں شریک ہوں۔
شاہد خاقان عباسی جو گزشتہ دور حکومت میں پی ٹی آئی اور اداروں کے درمیان پائے جانے والے ادارتی تال میل پر سخت نکتہ چینی کرتے تھے اب اداروں کے مسلسل ترلے کررہے ہیں کہ وہ غیر مقبول فیصلہ کرنے میں ان کی مددکریں۔چند ہفتوں بعد بجٹ پیش کرنا ہوگا اور وزیراعظم شہباز شریف کی حالت دیدیدنی ہے ؎ نے ہاتھ بانگ پر نہ پائے رکاب میں۔
نون لیگ کی لیڈرشپ نے اقتدارسنبھال تولیا لیکن جس طرح کے مسائل کا پاکستان کو سامنا ہے ان سے نبردآزما ہونے کا انہیں کوئی راستہ سوجھائی نہیں دیتا۔منحرف ارکان کے خلاف عدالتی فیصلے نے بھی حکومت کی کشتی کو ڈھوا ں ڈول کردیا ۔اپنی ناکامیوں کا غصہ پی ٹی آئی کے رہنماؤں اور کارکنان کو جیلوں میں ڈال کرحکومت نکالنا چاہتی ہے۔کراچی میں پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی عالمگیر خان کے گھر پچیس پولیس وینوں نے چھاپہ مارا جیسے کہ وہ کسی دہشت گرد کو پکڑنے نکلی ہوں۔ اخباری اطلاعات کے مطابق ان کے خلاف بغاوت کامقدمہ قائم کردیا گیا ہے۔یعنی اب دل اور دماغ پر پہرے بیٹھائے جائیں گے اور زبانوں کو تالے ڈالے جانے کو ہیں۔
جیلیں سیاسی تربیت گاہیں کہلاتی ہیں۔ سیاسی لیڈرشپ جب بھی جیل گئی کندن بن کر نکلی۔ جیل میں انسان کو غور وفکر کا موقع ملتاہے۔ عام وخاص لوگوں کے ساتھ تبادلہ خیال کا موقع میسر آتاہے۔ کتابوں سے دل بہلانے کے لیے بھی وقت نکل آتاہے۔ سیاستدان جیل سے نکلتاہے تو پہلے سے زیادہ مقبول،سلجھا ہوا اور فہیم ہوتاہے۔ پی ٹی آئی کی لیڈرشپ کو اپنے سیاسی سفر میں جیل کی ہوا نہیں کھانا پڑی۔عمران خان خود ایک آدھ بار مختصر سے وقت کے لیے جیل گئے لیکن لمبی جیل کسی نے بھی نہیں کاٹی۔
اب اگروزیراعظم شہباز شریف کی حکومت پی ٹی آئی رہنماؤں کو رانا ثنا اللہ کی قیادت میں سیاسی انتقام کا نشانہ بناتی ہے،تو اس کے نتیجے میں پی ٹی آئی کو جہاں سیاسی فائدہ ملے گا وہاں وہ زیادہ منظم اور متحرک پارٹی کے طور پر بھی ابھرے گی۔ شیریں مزاری کی گرفتاری پر آنے والا ملک گیر ردعمل اس حقیقت کی عکاسی کرتا ہے کہ حکومت شتر بے مہار کی طرح آزاد نہیں۔ عدالتیں حکومت کی دم چھلا نہیں۔ میڈیا ہی نہیں سوشل میڈیا بھی جاگ رہاہے۔ اور ہر جماعت کے اندر انسانی حقوق کے علمبردار، آزادی اظہار رائے اور اجتماع کا احترام کرنے والے موجود ہیں جو سرکار کو من مانی کرنے پر روکتے اور ٹوکتے ہیں (بشکریہ روزنامہ 92) ۔۔۔۔

close