بات ادارے کی ہے، محمد عبداللہ حسن کی خصوصی تحریر

فرسٹ ایئر کے داخلے کے بعد پری میڈیکل اسٹوڈٹنس کے لیے بائیولوجی کی یہ پہلی کلاس تھی، کلاس روم نیا، سبجیکٹ نیا، ٹیچر نیا، کالج میں داخل ہوئے چند روز ہوئے تھے، دنیا ہی رنگین لگ رہی تھی، لیکچر عروج پر تھا کہ اچانک آواز آئی، “سر مے آئی کم ان؟” سفید رنگ کی ڈھلکتی ہوئی ریشمی شلوار قمیض میں ملبوس نوجوان، تیل چپڑے ہوئے گھنے گھنگھریالے بال جن میں تیل کانوں تک آ رہا تھا، جھجک کر اندر آنے کی اجازت مانگ رہا تھا، ٹیچر نے اجازت دے دی، ٹیچر کے پوچھنے پر اس نے اپنا نام بتایا، جاوید اقبال، آئندہ دنوں میں دیکھا گیا کہ جاوید اقبال پیچھے ہی بیٹھتا تھا، بائیولوجی کی انگریزی کتاب سمجھنے کے لیے اس نے اردو کا خلاصہ خرید لیا تھا اور کلاس کے دوران بھی وہ اس خلاصے کو ہی کھول کر بیٹھتا تھا،

تماشا تو اس روز لگا جب ایک دن لیکچر کے دوران ٹیچر نے اچانک پیچھے مڑ کر دیکھا اور پوچھا، “یہ بارنیکل گوز کیا ہوتا ہے؟” چند ایک نے ہاتھ کھڑے کیے ان میں جاوید اقبال بھی شامل تھا، ٹیچر نے اسے جواب دینے کے لیے اشارہ کیا، وہ اٹھا اور جھجک کو بولا، “سر بارنیکل گوز ہوتا ہے، جہازی بطخ” ساری کلاس کی ہنسی چھوٹ گئی، جہازی بطخ کیا چیز ہے بھائی؟ اس نے اپنے اردو کے خلاصے کی طرف دیکھا اور کہا کہ، “سر کتاب میں تو یہی لکھا ہے”۔ سب ہنسنے لگے اور اس کے بعد اس کا اصلی نام تو شاید کسی کو یاد بھی نہیں رہا کیونکہ ٹیچر سمیت سبھی اس کو “جہازی بطخ” کے نام سے پکارنے لگے تھے۔

کلاس میں پٹاخہ تو اس روز پھٹا جس روز جہازی بطخ نے اعلان کیا کہ وہ آئی ایس ایس بی کے لیے کوہاٹ جا رہا ہے، کئی نے جملے کسے، بھائی جہازی بطخ فوجی افسر بننے جا رہا ہے، کپتان بنے گا، کلف لگی وردی پہنے گا، اور کئی ایک نے اس کی حوصلہ شکنی کے لیے ارادہ ترک کر دینے کا مشورہ دیا۔
جہازی بطخ کوہاٹ گیا، واپس آیا تو کسی نے نوٹس بھی نہ لیا لیکن کلاس میں اس دن طوفان آ گیا جس دن جہازی بطخ نے آئی ایس ایس بی پاس کرنے کا خط جیب سے نکال کر دکھایا اور پھر وہ پی ایم اے چلا گیا۔ ہم سب اپنے اپنے روز و شب میں گم ہو گئے۔

کوئی آٹھ سال بعد جب میں راولپنڈی کے ایک میڈیا ہاؤس میں پروفیشنل زندگی کا آغاز کر چکا تھا تو بینک روڈ پر جانا پہچانا چہرہ دکھائی دیا، دل دھک سے رہ گیا، “اوئے جہازی بطخ”۔ بجائے خوشی ہونے کے مجھے صدمہ سا ہوا کیونکہ وہ انتہائی اسمارٹ پینٹ شرٹ اور ٹائی میں ملبوس، فوجی کٹ اور دبنگ قسم کی چال ڈھال والا نوجوان فوجی افسر تھا، کیپٹن جاوید اقبال، میں جا کر اس کے سامنے کھڑا ہوا تو وہ ایک دم سے میرا نام لے کر لپٹ گیا، حال احوال پوچھ کر اس نے کہا کہ آؤ چائے پیتے ہیں اور گپ شپ لگاتے ہیں، چائے پیتے ہوئے میں اس کی گفتگو، اس کا رکھ رکھاؤ سبھی کچھ نوٹ کر رہا تھا، اس نے چائے کے ساتھ سموسہ کھاتے ہوئے مہارت کے ساتھ کانٹا استعمال کیا اور ایک خاص انداز کے ساتھ چائے میں چینی ڈالی، میں ایک اخباری رپورٹر اور وہ ایک اسمارٹ نوجوان فوجی افسر، میں اس کے سامنے کمفرٹیبل نہیں تھا، اس نے اصرار کر کے بل بھی ادا کیا اور بتایا کہ وہ ان دنوں یہاں ایک کورس پر ہے اور اس کے بعد اس کی پوسٹنگ آنے والی ہے جس کے ساتھ ہی وہ بطور میجر پروموٹ ہو جائے گا۔

یہ سب جو میں نے لکھا، یہ سب حرف بحرف درست واقعہ ہے اور میری ذاتی زندگی پر اس کے گہرے اثرات ہیں کیونکہ اس دن سے میں نے یقین کر لیا تھا کہ اس ملک میں فوج ہی ایک واحد ادارہ ہے جو کسی بھی عام آدمی کے باصلاحیت بچے کو اٹھا کر پی ایم اے کی ٹریننگ میں ایک ایسی پرسنیلیٹی میں تبدیل کر سکتا ہے کہ جس کی طرف لوگ مڑ مڑ کر دیکھیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ بائیس کروڑ آبادی والے ملک میں واحد ادارہ فوج ہے جس کا خمیر اس مٹی سے اٹھا ہے، جس میں سپاہی سے لے کر جرنیل تک عام گھرانوں کے بچے ہیں۔ گاؤں کے درمیانے یا نچلے درجے کے زمیندار ہوں یا ہاری، دفتروں میں کام کرنے والے بابو ہوں یا نان گزیٹیڈ افسران اور پھر ان کے علاوہ پاک فوج کے جے سی اوز اور بڑی تعداد میں این سی اوز، ان سب کی اولادیں ہی آئی ایس ایس بی جانے کے لیے خواب دیکھتی ہیں۔

جو لوگ نہیں جانتے وہ جان لیں کہ پاک فوج اسی لیے مضبوط، مستحکم اور ہر دلعزیز ادارہ ہے کہ اس کی جڑیں بائیس کروڑ عوام میں ہیں۔ صلاحیت رکھنے والا بچہ چاہےعام مزدور کا ہو، دکاندار یا سرکاری ملازم کا، کسی سرمایہ دار، کسی کارخانہ دار، کسی جاگیردار کا ہو، جس کی یہ خواہش کی ہو کہ وہ ایک انتہائی کٹھن ٹریننگ حاصل کرے اور پھرکندھوں پر ستارے سجائے اور مائینس ٹمپریچر میں برف سے ڈھکے پہاڑوں خیمے میں جاگ کر راتیں گزارے۔ یہ انتخاب اور اس عمل میں ترقی کسی ریفرنس اور حوالے کے بغیر ہوتی چلی جاتی ہے۔ ایک سسٹم ہے جو چلتا جاتا ہے۔ کبھی کسی پروموشن یا تقرری میں یہ نہیں دیکھا گیا کہ اس کا باپ کون تھا؟

صرف اتنا جائزہ کہ روز اول سے لے کر اس کی فائل کیا کہتی ہے؟
جن کے دل میں یہ سوال جنم لیتا ہے کہ پاکستان کی فوج کو پاک فوج کیوں کہا جاتا ہے؟ ان کے لیے جواب یہ ہے کہ اگر پاکستان کا نام اس کے بنانے والے کچھ اور رکھ دینے تب بھی فوج کی پہچان پاک فوج ہی ہوتا کیونکہ یہ نام پکارنے والے کسی دوسرے کو نہیں اپنے بچوں کو، ان کے کاندھوں پر سجے اسٹارز کو اور ان کے سینوں پر سجے تمغوں کو سلام کرتے ہیں۔ ان کے لہو بہانے والے ساتھیوں، کورس میٹس کو خراج تحسین اور خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔

جو لوگ اس رمز سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ پاکستان میں فوج اور عوام کا جدا کرنا ممکن نہیں، کیونکہ زمین پر پریڈ کی دھمک پیدا کرنے والے بوٹ اور فضا میں گھن گرج پیدا کرنے والے طیارے میں ان ہی کے دائیں بائیں کے گھر کا کوئی بیٹا کوئی بھائی ہے۔
یہ الزام تو کئی برسوں سے ہے لیکن گذشتہ چند ماہ سے کچھ زیادہ ہی شدت سے وطن عزیز میں ایک نئی بحث چھڑ چکی ہے کہ پاک فوج نے ملکی سیاست میں دخل اندازی شروع کر رکھی ہے، اگر حقیقت کی نگاہ سے دیکھا جائے تو یہ سلسلہ آج سے نہیں روز اول سے جاری ہے۔ گورنر جنرل غلام محمد ہوں یا کاغذی میجر جنرل اسکندر مرزا، ذوالفقار علی بھٹو ہوں یا بے نظیر بھٹو، نواز شریف یا عمران خان، سبھی اپنے اپنے مقاصد کے لیے اقتدار میں آئے، ابتداء میں آنے والوں نے ناہلیت اور نالائقیوں کے ایسے ریکارڈ قائم کیے کہ 1958 میں ادارہ براہ راست میدان میں آ گیا۔ بعد میں آنے والے سبھی پھر انہی گملوں کے پھول تھے۔ گذشتہ چند ماہ پر نگاہ دوڑائیں تو عمران خان کے توشہ خانے کے معاملات سے لے کر شہباز شریف کے ہمراہ سعودی عرب جانے والے وفد کی تفصیلات تک۔ سبھی حیرت کے نظارے ہیں۔

یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ یہ حکمران اس حلف کی پاسداری کی بات تو کرتے ہیں جو پی ایم اے سے پاسنگ آؤٹ کے وقت اٹھایا جاتا ہے لیکن اس حلف کو یاد کیوں نہیں رکھتے جب یہ قومی خزانے سے دل کھول کر فضول خرچی کرنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں؟
ایک وقت تھا کہ پرنٹ میڈیا کا ملک پر راج تھا، پھر اکیسیوں صدی کے آغاز پر الیکٹرانک میڈیا نے زور پکڑا لیکن وہ کوئی پندرہ سے بیس سال کا ایک بلبلہ ثابت ہوا جس کے بعد اس کی جگہ سوشل میڈیا یا ڈیجیٹل میڈیا نے لے لی۔ اب جس کے ہاتھ میں اسمارٹ فون ہے وہ صحافی بھی ہے، وہ اینکر بھی ہے، وہ تجزیہ کار بھی ہے اور اس کی کوشش ہے کہ اسے فیصلہ سازی کے عمل میں دخل اندازی کا موقع بھی دیا جائے۔

گذشتہ چند سال کے دوران سوشل میڈیا پر پاکستان کے عام شہریوں اور سیاسی کارکنوں نے اس انداز میں قومی معاملات پر بحث و تمحیث شروع کی کی بعض اوقات ایسا لگنے لگا کہ فیصلہ سازی کے لیے پارلیمنٹ اور دیگر قانونی ادارے تو محض وقت کا ضیاع ہیں۔ اصل بات تو یہیں طے ہونے جا رہی ہے۔ حکومت وقت اور اپوزیشن (جو اب حکومت میں بدل چکی ہے) سوشل میڈیا پر جاری لفظی جنگ گالی گلوچ اور رقیق حملوں میں بدلتی چلی گئی۔ اس میں ہر طرح کے شہری فریق بن رہے تھے اور کوئی کسی طرح کی لگی لپٹی نہیں رکھ رہا تھا۔ جو جس کے منہ میں آئے بول رہا تھا۔ایسے ماحول میں ایک موضوع پاک فوج کو بھی بنا لیا گیا۔ بعض لوگ جو کچھ عرصہ پہلے تک پاک فوج کے چند ذمہ داران کو تنقید کا نشانہ بنا رہے تھے وہ اب اس کی حمایت میں بولنے لگے اور جو لوگ ایک پیج پر ہونے اور قربت کے دعویدار تھے وہ منفی پروپیگنڈے کا حصہ بنتے چلے گئے۔اس کے باوجود کہ مسلح افواج میں خدمات انجام دینے والے افراد پر بوجوہ پابندی ہے کہ وہ سوشل میڈیا استعمال نہیں کر سکتے لیکن ایسی کسی پابندی کا اطلاق ریٹائرڈ افراد پر نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ جب چند ماہ قبل مسلح افواج کے چند ذمہ داران پر بعض سیاسی حلقوں کی جانب سے تنقید کی جا رہی تھی تو ریٹائرڈ افسران کی ایک بڑی ٹیم منظم انداز میں منفی پروپیگنڈے کو کاؤنٹر کرنے میں مصروف تھی اور یہ کام دو سطح پر چل رہا تھا کہ ایک تو کچھ ریٹائرڈ سینئرز باقاعدہ ٹی وی پروگرامز میں بیٹھ کر لگائے جانے والے الزامات کا مدلل انداز میں جواب دے رہے تھے اور ریٹائرڈ افسران کی ایک اور بڑی ٹیم ٹویٹر اور فیس بک پر متحرک تھی اور الزامات کا مسلسل توڑ کرنے میں مصروف تھی۔لیکن چند ہفتے قبل پاکستان مین سیاسی تبدیلی کے بعد صورتحال کنفیوژن کا شکار نظر آنے لگی۔ خاص طور پر وہ لوگ جو ٹویٹر اور سوشل میڈیا کے دیگر پلیٹ فارمز پر متحرک تھے، وہ یوں لگا کہ ان کی ایک معقول تعداد سیاسی تبدیلی کو ذہنی طور پر قبول نہیں کر پائی اور سوشل میڈیا پر جاری پروپیگنڈے کے زیر اثر آ کر اس کی براہ راست ذمہ داری عسکری قیادت ہر عائد کرنے لگی جس کے نتیجے میں الزام تراشی کی ایک ایسی مہم کا آغاز ہوا جس کی پہلے مثال نہیں ملتی۔اس مرحلے پر مجھے جنرل حمید گل بہت یاد آئے۔ میری ان سے طویل نشستیں رہتی تھیں۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ، “میں نے یونیفارم اتاری ہے کہ یہ سسٹم کا ایک تقاضہ ہے لیکن میرے مشن اور اہداف میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی کیونکہ میں نے حلف صرف پروفیشن کے دورانیے کے لیے نہیں بلکہ زندگی بھر کے لیے اٹھایا تھا اور یہ کہ میں نے کبھی بھی خود کو اس ڈسپلن سے باہر نہیں سمجھا۔

درپیش حالات میں جو ریٹائرڈ افسران سوشل میڈیا کے پروپیگنڈے کا شکار ہو کر دباؤ میں آ رہے ہیں انہیں بھی یقینا اندازہ ہو گا کہ ان کی یہ جزباتی کیفیت انہیں ادارے کے ڈسپلن سے باہر کے جا رہی ہے اور وہ اپنے زندگی بھر کے حلف سے روگردانی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ بات شخصیات کی نہیں بات سسٹم کی ہے، بات ادارے کی ہے۔ ادارہ مستحکم تو سب اچھا ہے لیکن موجودہ حالات میں جاری کنفیوژن ادارے کے لیے نقصان کا باعث ہو سکتا ہے۔۔۔۔۔۔

close