کُرپشن، امریکہ اور انتخابی اصلاحات، کینیڈا میں مقیم ممتاز پاکستانی دانشور فیاض باقر کی خصوصی تحریر

پاکستان کے سیاسی ماحول میں کشیدگی اور تناؤ اس قدر زہرناک ہو گئے ہیں کہ ٹھنڈے طریقے سے مکالمے کی گنجائش انتہائ محدود ہو گئ ہے۔ اس بات کا تو کوئی واضح ثبوت سامنے نہیں آ سکا کہ امریکہ موجودہ حکومت کو ہٹانے کے لئے سازش کر رہا ہے۔ لیکن نئی سرد جنگ میں غیر جانبداری پر مُلک کی تمام سیاسی قُوتوں کا اتفاق ہے۔ اس اتفاق کے کمزور ہونے سے امریکہ کو مدد ضرور ملے گئی۔ بدقسمتی سے جو رسہ کشی اس وقت ہو رہی ہے اُس سے دونوں فریق بلا ارادہ پاکستان کی قوت مدافعت کو کمزور کر رہے ہیں۔

حکومت اور اپوزیشن دونوں کے حمایتی بجا طور پر ہمارے انتخابی اور دستور ی نظام کی کمزوریوں پر نالاں ہیں۔ اور پارلیمانی سیاست سے اُن کی مایوسی ہی اُن کے غم و غُصے میں ظاہر ہو رہی ہے۔ اس وقت میڈیا اور سوشل میڈیا میں بجا طور پر تمام بحث حکومت ہٹانے اور نئی حکومت بنانے کی دستور ی اور قانونی حیثیت پر ہو رہی ہے۔ عدالت عالیہ کے آج کے خوش آئند فیصلے نے قانونی پیچیدگی کو سُلجھا دیا ہے۔ لیکن ہمارا بنیادی مسئلہ امریکہ یا کرپشن کے خلاف نعرے لگانے سے حل نہیں ہو سکتا- اس کے لئے ہمارے انتخابی اور حکومتی نظام چند بنیادی اصلاحات کی ضرورت ہے۔
ہماری جمہوریت ایک نحیف و نزار جمہوریت ہے۔ 1970 میں جمہوریت کو چند برس کے لئے گلیوں بازاروں میں آنے کا موقع ملا تھا۔ آنے والے سالوں میں یہ دوبارہ ڈرائنگ رُوموں اور ڈیرہ داروں کے ہاں منتقل ہو گئی۔

ہماری جمہوریت کو جب تک وسعت اور گہرائ حاصل نہیں ہو گی اس طرح کے بُحران بار بار پیدا ہوتے رہیں گے۔

یہاں پہ یہ کہنا ضروری ہے کہ امریکہ کے ممتاز دانشوروں کو بھی امریکی سیاست میں کُرپشن کی شکایت ہے۔ اُن میں ری پبلکن ملٹن فریڈ مین اور ڈیمو کریٹ جیفری سیکس شامل ہیں۔ یہ دونوں ممتاز معیشت دان ہیں اور اُن کے کہنے کے مطابق سیاست ایک کاروبار بن چُکا ہے اور اس کاروبار میں بڑی کارپوریشنیں قانونی طریقے سے سیاستدانوں کو لابی اسٹ بنا کر اُن سے اپنے حق میں قانون سازی کرواتی ہیں۔ یہ کارپوریشنیں کھربوں روپے کی آمدنی پر ٹیکس چوری بھی کرتی ہیں۔ یہی حال ہندوستان اور اسرائیل کے سیاستدانوں کا ہے۔ اسرائیل کے وزیر اعظم نیٹن یاہو تو کُرپشن کے الزام میں برطرف بھی ہو چُکے ہیں۔ لیکن مضبوط جمہوریتوں میں چوروں اور اُن کا پیچھا کرنے والوں دونوں کو اپنا مقدمہ پیش کرنے کی آزادی ہوتی ہے اور مُلزم سے مُجرم کا سلوک نہیں کیا جاتا۔ امریکی نظام میں شہریوں کو یہ گُنجائش دی گئی ہے کو وہ قانون ، عدالتوں، تحقیقی کام اور گلیوں بازاروں کی قوت سے اپنے نظام میں مسلسل اصلاح کرتے رہیں۔ حال ہی میں کیلیفورنیا کی پاکستانی نژاد ایک جوان مُسلم خاتون نے اینٹی ٹرسٹ لا کے تحت سلیکون ویلی کی ایک بڑی کارپوریشن کے خلاف مقدمہ جیتا ہے۔پاکستانی جمہوریت اور سول اور ملٹری سیاست نے روشن ذہن اور بیدار دل نوجوانوں کو اس لئے مایوس کیا ہے کیونکہ پانچ سال میں ایک دفعہ ووٹ دینے کے حق کے علاوہ اُنہیں کوئ سیاسی رول نہیں ملا۔ہماری سیاسی اور فوجی قیادت نے اگر مایوسی ختم کرنی ہے تو انہیں بھی انتخابی نظام میں کُچھ بنیادی تبدیلیوں پر اتفاق کرنا ہو گا۔جیسے ملٹن فریڈ مین نے کہا ہے اس بات سے کوئ فرق نہیں پڑتا کہ آپ پار سا لوگوں کو چُنتے ہیں یا چوروں کو بلکہ اس بات سے فرق پڑتا ہے کہ آپ نے کھیل کے ضابطے کیا بنائے ہیں۔آپ بلی کو دُودھ کی رکھوالی پہ رکھیں گے تو پیالہ خالی ہو جائے گا۔

پاکستان کے انتخابی اور حکومتی نظام میں چند بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے جن سے عام آدمی سے بالا بالا مالُی وسائل مافیا کے ہاتھوں خرچ نہیں ہوں گے۔سب سے پہلی بات یہ ہے کہ بجٹ کا 60 فیصد مقامی حکومت کے پاس جانا چاہئے۔ قومی اسمبلی کو قانون سازی کرنی چاہئے انہیں ڈیولپمنٹ فنڈ نہیں ملنے چاہئیں۔ دوسری بات یہ کہ ہمارا انتخابی نظام ایک کاروباری نظام بن چُکا ہے۔ انتخابی مہم چلانا، پارٹی ٹکٹ لینا، پارٹی قیادت کا حق حاصلُ کرنا سب دولت کا کھیل بن چُکے ہیں ۔الیکشن کے لئے پارٹی ٹکٹ کا فیصلے کا حق کارکنوں کو ملنا چاہئے۔

پارلیمانی بورڈ کو نہیں۔ تیسری بات یہ ہے جو پارٹی اپنے عہدےداروں کا انتخاب نہیں کرواتی اُسے انتخاب لینے کا قانونی حق نہیں ملنا چاہئے۔ پارٹی خاندانی کاروبار نہیں ہے پارٹی قیادت وراثت میں نہیں ملنی چاہئے۔

چوتھے سرکاری ملا زمین کو سرکاری کام میں لوٹ کھسوٹ کی نشاندہی کرنے پر اپنا تحفظ حاصل کرنے کے لئے وسل بلوئر ایکٹ کے ذریعے تحفظ دیا چاہئے۔ سرکاری منصوبوں کو چلانے میں قیمتوں اور کاغذوں میں ہیر پھیر کرنا کرپشن کا بہت ذریعہ ہیں- جب تک ایماندار سرکاری ملازمین کو تحفظ نہیں ملے گا وہ لٹیروں کا ہاتھ نہیں روکیں گے-

پانچویں ہمیں کاروباری شعبے میں حکومت کا عمل دخل کم سے کم کرنا چاہئے۔ سرکاری کاروباری ادارے کرپشن کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔

سپیشل اکنامک زون بنا کر سرکاری مراعات پہ چلنے والے نجی کاروباری اداروں کو بھی چھُٹی پہ بھیجنا چاہئے۔چھٹے ٹیکس کی شرح قومی آمدنی کے 10 فیصد سے بڑھا کر 20 فیصد کی جائے۔ کشکول کو ٹیکس کے ذریعے توڑا جا سکتا ہے تقریروں کے ذریعے نہیں۔

ان سب اصلاحات کا فیصلہ نیشنل سکیورٹی کونسل اور کل جماعتی نمائندگی پر مشتمل کمیٹی میں بحث مباحثے اور اُن کی رضا مندی سے ہونا چاہیے۔۔۔۔

close