سینئر صحافی سہیل اقبال بھٹی کا کالم، بشکریہ روزنامہ 92

بُل فائٹنگ کا شمار دنیا کے خطرناک ترین کھیلوں میں کیا جاتا ہے۔سپین میں یہ کھیل کئی صدیوں سے جاری ہے۔ سپین میں بُل فائٹنگ کا سیزن اپریل سے ستمبر تک جاری رہتا ہے۔وقت گزرنے کیساتھ اس کھیل میں جدت اور ورائٹی شامل ہوتی گئی۔ گلیڈی ایٹرز کے کھیلوں کے طرز پراسٹیڈیم میں بُل فائٹنگ کیساتھ بُل رننگ کے کھیل میں بھی عوام گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔سپین میں بپھر ے بیلوں کا سامنا موت سے ٹکرانے سے کم نہیں۔ چندسال قبل ان بپھرے ہوئے بیلوں کیساتھ انوکھا کھیل پیش کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس کھیل کو کرالنگ ریس کا نام دیا گیا۔سکیم آف گیم کے تحت 40افراد پر مشتمل دوٹیمیں تشکیل دی جاتی ہیں۔ اسٹیڈیم میں ان دونوں ٹیموں کوایک لائن کی شکل میں رینگتے ہوئے ایک کونے سے دوسرے کونے تک جاکر واپس اپنی جگہ پر پہنچنے کا جان لیوا ٹاسک سونپا جاتا ہے۔دونوں ٹیموں کے مابین قریباً 80فٹ سے فاصلہ برقرار رکھاجاتا ہے۔جیسے ہی دونوں ٹیمیں رینگ کر آگے بڑھنے کا سلسلہ شروع کرتی ہیں تو مخالف سمت سے بپھرا ہوابیل اسٹیڈیم میں آزاد چھوڑ دیا جاتا ہے۔مختلف رنگوں کی شرٹس میں ملبوس کسی بھی ایک ٹیم کی جانب جیسے ہی بیل لپکتا ہے تو کھلاڑی فوراً زمیں پر اوندھے منہ لیٹ کر بالکل ساکت ہوجاتے ہیں۔بیل کھلاڑیوں کے پاس رک سراور جسم کو سُونگھنا شروع کردیتاہے۔کھلاڑیوں اور اسٹیڈیم میں تماشائیوں کی سانس رک چکی ہوتی ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ابھی یہ بپھرا ہوا بیل زمین پر لیٹے ہوئے شخص کو اپنے نوکیلے سینگھوں پر اٹھا کر فضا میں اُچھال یا اپنے پاؤں تلے کُچل دے گا۔سپین میں ایسے کئی خوفناک واقعات رونماہوچکے ہیں جہاں ان بیلوں کے حملوں کے نتیجے میں کئی افراد زندگی کی بازی ہار گئے یا پھر باقی زندگی کیلئے معذور ہوگئے۔مگراس کھیل کی ویڈیو بڑی ہی حیران کن ثابت ہوئی۔غصیلا بیل جیسے ہی زمین پر لیٹے افراد کے سر پر پہنچتا تو دوسری ٹیم کے کھلاڑی فوری رینگناشروع کردیتے۔غصیلا بیل آگے بڑھتے ہوئے اپنے ہدف کو دیکھتا تو پہلی ٹیم کے ساکت کھلاڑیوں کو چھوڑ کر فوراًدوسری پُھنکارتا ہوا دوسری ٹیم کے کھلاڑیوں پر حملہ کرنے کیلئے دوڑتا ہے۔ کھلاڑی غصیلے بیل کو اپنی جانب بڑھتے دیکھتے توفوراً اوندھے منہ لیٹ جاتے۔کھلاڑی ایسے لیٹتے جیسے گرگٹ شکار کرنے کیلئے عیاری کا مظاہرہ کرتاہے۔غصیلا بیل دوسری ٹیم کی کھلاڑیوں کے پاس پہنچ کر فوراً رک جاتا کیونکہ ہدف حکمت عملی بدل کر ساکت ہوجاتاتھا۔ ایسے میں پہلی ٹیم کے کھلاڑی کافی آگے بڑھ چکے ہوتے۔ غصیلا بیل پہلی ٹیم کے کھلاڑیوں کی حرکت پر فوراً ان پر حملہ آور ہونے کیلئے دوڑ لگادیتا ہے۔اپنی جانب لپکتے غصیلے بیل کو دیکھ کر کھلاڑی فورا ًرک جاتے جبکہ دوسر ی ٹیم کے کھلاڑی تیزی کیساتھ اپنے ہدف کی جانب آگے بڑھنا شروع کردیتے۔ غصیلے بیل کیساتھ دونوں ٹیموں کی آنکھ مچولی یونہی چلتی رہتی اور بالآخر کچھ لمحوں کے بعد ایک ٹیم راؤنڈ مکمل کرکے فتح کاشادیانہ بجادیتی ہے۔ دوسری ٹیم اگرچہ ہار چکی ہوتی ہے مگر بپھرے ہوئے غصیلے بیل کے سامنے پہنچ کر مو ت کو دعوت دینے کے بعد اسٹیڈیم سے سلامت نکلنے پر کافی خوش دکھائی دیتی ہے۔ ایسے میں ہزاروں افراد کے سامنے اسٹیڈیم میں بپھراہواتنہا بیل مایوسی میں غرق جبکہ تماشائی تالیوں سے آسمان سر پر اٹھالیتے ہیں۔میں نے یہ ویڈیوتین چارمرتبہ دیکھی۔ ہر بار ویڈیو دیکھتے وقت میں میری نگاہوں کے سامنے سپین کے اسٹیڈیم کے بجائے ملک میں جاری مافیا زکے کھیل تو کبھی مافیازکے خلاف برسرپیکار وزیراعظم عمران خا ن کے اقدامات کے منظر گھومنے لگتے۔گزشتہ اڑھائی برس کے دوران وزیراعظم عمران خان اور مافیا زکے درمیان جاری جنگ یہی منظر پیش کررہی ہے۔مافیازکی کارستانیوں کے 15سے زائد اسکینڈلز منظر عام پر آئے‘نوٹس ہوا مگر نتیجہ یہ نکلا کہ مافیا مزید مضبو ط ہوگیا۔ عوام اور قومی خزانے کیساتھ کھلواڑ کے کچھ کھیل تو روز روشن کی طرح واضح ہیں۔ جیسے 35برس کے دوران پاکستان میں کاریں تیار کرنے والی کمپنیوں کا کھیل ہے۔چار مہینے قبل وفاقی کابینہ نے ملکی گاڑیوں کی قیمت میں مسلسل اضافہ اور مقررہ مدت گزرنے کے باوجود لوکلائزیشن نہ کرنے پر نوٹس لیا تھا۔ وزیراعظم نے ملک میں گاڑیوں کی قیمتوں میں مسلسل اضافے پربرہمی کا اظہار کیا اور وزارت صنعت وپیداوار کو ہدایت کی تھی کہ انکوائری کرکے رپور ٹ پیش کی جائے کیونکہ ملک میں مقامی سطح پر تیار ہونے والی گاڑیوں میں ٹائر‘سیٹیں‘بیٹری اورباڈی مقامی طور پر تیار کی جاتی ہے جبکہ قیمتی مشینری باہر سے ہی منگوائی جاتی ہے۔ دنیا کا ساتویں نیوکلیئر پاور گاڑیوں کا انجن‘ٹرانسمیشن‘امبولائزراور ای سی یو تیار نہیں کرسکا۔یہ قیمتی پارٹس تیار کر نا کوئی راکٹ سائنس نہیں تھی مگر بدقسمی کیساتھ تین غیرملکی کمپنیوں نے وزارت صنعت اور حکومتی ایوانوں خاموش رہنے کیلئے راضی کئے رکھا۔ گاڑیوں کے یہ چار اہم پارٹس کی تیاری اگر پاکستان میں شروع کردی جاتی تو قیمتی زرمبادلہ کی بچت‘ٹیکنالوجی کی منتقلی‘محفوظ اور سستی گاڑیاں‘ملازمتیں اورخودانحصاری کا خواب شرمندہ تعبیرہوچکا ہوتا۔ آج پاکستان گاڑیاں درآمد نہیں بلکہ برآمد کررہا ہوتا۔وزیراعظم کی ہدایت پرنئی پالیسی کے تحت پاکستان میں تیارکی گئیں گاڑیاں ایکسپورٹ کرنیکی تیاری ہوچکی ہے۔ ایک ملک کی کمپنیوں کی اجارہ داری کا خاتمہ شروع ہوچکا۔ بااثر شخصیات نے وفاقی کابینہ کے فیصلے کے باوجودتحقیقات کو کھوہ کھاتے میں ڈلوادیا ہے۔ ڈالر کی قدر میں اضافے کے آڑ میں گاڑیوں کی قیمتوں میں اضافے کی واردات ڈال دی جاتی ہے۔ڈالر کی قدر 8 فیصد کم ہو چکی ہے مگر گاڑیوں کی قیمتوں میں اضافے کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ پاکستان میں تیارکی جانیوالی گاڑیوں میں موجودسہولتیں بھی دنیا میں تیارکردہ گاڑیوں کے مقابلے میں کم ہیں۔ ملک میں گاڑیوں کی کبھی کریش ٹیسٹنگ ہی نہیں کی گئی۔ وزارت سائنس وٹیکنالوجی نے کریش ٹیسٹنگ کروانے کا اعلان تو کیا تھا مگر بااثر شخصیات نے اس معاملے کو بھی رکوادیا ہے۔ سپین کے اسٹیدیم میں کھلاڑی بپھرے ہوئے غصیلے بیل کو چکمہ دینے میں کامیاب ہوگئے تھے تو دوسری جانب پاکستان میں بھی مافیا زوننگ پوائنٹ کی جانب بڑھتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔۔۔۔

close