ظفر بختاوری… اسلام آباد کی شناخت، قاضی عبدالقدیر خاموش کا کالم، بشکریہ روزنامہ نوائے وقت

گریڈوں کا شہر اسلام آباد کبھی بھی اپنی ثقافتی اور ادبی شناخت نہ بنا پاتا اگر ظفر بختاوری جیسے ’’بخت آور ’’نے یہاں ڈیرے نہ ڈالے ہوتے۔بہت تلاش کے بعد بھی اردو جیسی وسیع زبان کا دامن ایسے کسی ایک لفظ سے نا آشنا ہے، جو ظفر بختاوری کا تعارف بن سکے،وہ بیک وقت تاجر ہیں، صحافی ہیں، تجزیہ نگار اور دانش

ور ہیں،سفارتکار،عالمی مبصر، سماجی راہنما،سیاست دان اور ادیب ہیں، ان سب سے معتبر یہ کہ محب وطن اور حریت پسند ہیں، مزے کی بات یہ کہ ہر حوالہ میں طاق ہیں، کیوں نہ صرف اتنا ہی کہا جائے کہ یہ صرف ’’ظفر بختاوری’’ہیں،اپنی مثال آپ۔ پورے ملک میں شاز ہی کوئی ایسا ہو، جس میں یہ سب خوبیاں بیک وقت اپنی تمام تر مہارتوں کے ساتھ یک جان ہوں، سفارت کاری کا عالم تو یہ ہے کہ بلا مبالغہ کہا جاسکتا ہے، پاکستان میں ان کا کوئی ثانی نہیں ہے، یہاں تک کہ نامور سفارتی بیوروکریٹس اور وزرا ء خارجہ کو بھی سفارتی حلقوں میں وہ مقام حاصل نہیں جو انہیں کا خاصہ ہے۔ شہر اقتدار کی کوئی سفارتی تقریب ایسی نہیں جو ان کے بغیر ممکن ہو سکے اور کوئی نیا پرانا سفارتکار ایسا نہیں جس کی تفصیلات انہیں ازبر نہ ہوں اور وہ ان کا احترام نہ کرتا ہو، کہا جاسکتا ہے کہ ظفر بختاوری پاکستان کا ایک جیتا جاگتا اور چلتا پھرتا غیر سرکاری ’’ون مین فارن آفس’’ہے۔اس شہر میں تعلقات بھی کاروبار ہے، لوگ سلام دعا چھوڑ جاتے ہیں اگر مفاد نہ ہوتو، تعلقات بیچے جاتے ہیں، ان کے بدلے دولت کمائی جاتی ہے اور کاروبار بڑھائے جاتے ہیں، مگر ان کا معاملہ اس سب سے الٹ ہے کہ کمانے کے بجائے تعلقات پر خرچ کرتے ہیں، میزبان بننے ہیں اور احباب کی دعوتیں کرکے خوش ہوتے ہیں۔ اندرون ملک ہوں یا بیرون ملک ظفر سراپا پاکستان ہیں، پاکستان کی

شناخت،اور پاکستان کا مان۔ اجرہیں، تو اس شان کے ساتھ کہ جڑواں شہروں کا ہر شخص آنکھیں بند کرکے اگر کسی کیمسٹ سٹور پر اعتبار کرسکتا ہے تو وہ ظفر بختاوری کا ہے،ڈی واٹسن کا نام بھی عجیب داستان لئے ہوئے، جو ان کے بہترین شرف انسانی احسان شناسی کی دلیل ہے۔ ہمارے یہ بھائی دوران تعلیم بصارت کے ایک خوفناک عارضہ کے سبب بینائی سے محروم ہو گئے تھے، ان کا علاج برطانیہ کے ڈاکٹر واٹسن نے کیا اور انہوں نے جب اپنا بزنس شروع کیا تو اس کا نام اپنے اسی محسن کے نام پر رکھا۔ ظفر بختاوری کی قومی خدمات کا دائرہ بہت وسیع بلکہ وسیع تر ہے، تحریک پاکستان اور نظریہ پاکستان سے متعلق تمام سرگرمیوں کا مرکز وفاقی دارلحکومت میں اگر کوئی شخصیت ہے تو اس کا نام ظفر بختاوری ہے، اس کے ساتھ انہوں نے ایک دور میں مسلم لیگی عہدیدار کے طور پر سیاست بھی کی، مگر آج کی ٹانگ کھینچ، گالم گلوچ برانڈ سیاست سے ان کا دور بھی واسطہ نہیں رہا۔ توڑنے اور تقسیم کرنے کی سیاست سے ہمیشہ خود کو بچا کر رکھا،جبکہ پاکستان اور نظریہ پاکستان کی سیاست کے لئے دن رات ایک کردیا،ویسے اگر دیکھا جائے تو اس ملک کا کونسا سیاستدان، دانشور یا صحافی ہوگا جس نے ان کے دسترخوان پر آنے کی عزت نہ پائی ہو۔ اسلام آباد چیمبرز کے صدر رہے، وفاق ایوان ہائے صنعت وتجارت کے نائب صدر کے طور پر بھی خدمات سرانجام

دیں، صرف اندرون ملک ہی نہیں بلکہ دنیا کے ہر ملک میں پاکستان کا پرچم بن کر لہرانے اور پاکستان کے مفادات کی خاطر ڈٹ جانے والی شخصیت کا نام ظفر بختاوری ہے۔حیرت کی بات تو یہ کہ ان تمام تھکا دینے والی مصروفیات کے باوجود ان کے پاس اپنے احباب کے لئے وقت وافر دستیاب ہے، یہاں تک کہ اس شہر کی کوئی باوقار تقریب ایسی نہیں جو ان کے بغیر انعقاد پذیر ہو سکے اور کوئی سماجی مصروفیت ایسی نہیں جو ان کے بغیر باوقار کہلا سکے، بلا شبہ کہا جا سکتا ہے کہ ظفر بختاوری ایک زیرک سیاست کار کے ساتھ ساتھ شریف النفس،متحمل مزاج،خوش اطوار، علم پرور کتاب دوست اور درد دل رکھنے والی شخصیت ہیں۔ نرم دم گفتگو اور گرم دم جستجو کے اوصاف والے ظفر بختاوری کی بنیادی خوبی یہ ہے کہ وہ گفتگو کرنے کے ساتھ ساتھ خاموشی اختیار کرنے اور اپنی بات منوانے کے ہنر میں طاق ہیں۔ حریت پسندی کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب مفتی اعظم فلسطین پاکستان تشریف لائے تو اسلام آباد کی سب سے بڑی عوامی ضافت کے میزبان یہی تھے۔ فلسطینیوں کی جدوجہد آزادی سے لیکر اہل کشمیر کی داستان حریت تک کہاں کہاں ان کا فیض موجود نہیںہے؟یہ داستان دل پذیر کبھی پھر سہی۔۔ ظفر بختاوری کے کالموں کا مجموعہ جہاں دوست کے نام سے شائع ہو کر ارباب دانش سے داد وتحسین وصول کر رہا ہے، ان کا اسلوب نگارش تو ہے ہی فن تحریر

کا عروج لیکن ان کا انتخاب بھی کمال کا ہے، اپنی پوری زندگی کا حاصل چند تحریروں کی صورت منتخب کرنا کوئی آسان کام نہیں، یہ کتاب ان کی کی ترجیحات، ان کی صحافتی مہارت اور پاکستان کے لئے ان کی خدمات کا عکس قرار دی جا سکتی ہے،اس میں ایک جانب وہ ایک سوانح نگار کی حیثیت سے مختلف شخصیات کا تعارف کرواتے ہیں تو ساتھ ساتھ ایک ماہر تجزیہ نگار کے طور پر سیاست، ثقافت اور اقتصادیات پر رائے زنی بھی کر تے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ صرف یاد ماضی نہیں ہے، فردا کے لئے روشنی بھی ہے۔اگر کوئی ڈھونڈنا چاہے تو اس میں موجودہ سیاسی عدم استحکام جیسی صورتحال کا حل بھی موجود ہے۔ ہمارے خیال میں یہ کتاب صرف ان کے کالموں تک محدود ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ جناب ظفر بختاوری اپنی داستان حیات لکھیں جو آنے والی نسلوں کے لے راہنمائی کا بے پناہ سامان لئے ہوئے ہوگی۔ ان کی سیاسی اور سفارتی یاد داشتوں پر مشتمل کتب بھی وقت اور مستقبل کی ضرورت ہی نہیں بلکہ تاریخ کا ایک قرض بھی ہیں۔ توقع رکھی جانی چاہئے کہ ان کے رواں قلم سے مزید رشحات پڑھنے کو ملتے رہیںگے، اور اس طرح سے کم ازکم اسلام آباد کی صحافتی، ادبی اور سفارتی تاریخ مرتب ہو سکے گی۔ اللہ رب العزت انہیں صحت وسلامتی کے ساتھ عمر خضر عطا فرمائے کہ وہ اسلام آباد کا تمدنی چہرہ، تہذیبی شناخت اور زندگی کی علامت ہیں۔۔۔۔

close