ذوالفقار علی بھٹو کی کتاب “میرا لہو” کی چوتھی قسط، فرخ سہیل گوئندی کے قلم سے

غریب ماں کا بیٹا
بھٹو قبیلہ ایک سپہ گر راجپوت قبیلہ ہے جو موجودہ بھارتی صوبہ ہریانہ کے دو قصبوں بھٹو اور بھٹو کلاں میں آباد تھا۔ یہ دونوں گاؤں ہریانہ کے ضلع سرسہ میں واقع ہیں۔ جنوری 1986ء میں دونوں گاؤں میں مشاہدے کے لیے وہاں جا کر میں نے متعدد لوگوں سے اس بات کی تصدیق کی کہ بھٹو یہیں سے ہجرت کرکے سندھ میں جا کر آباد ہوئے۔ آج سے تقریباً تین سو سال قبل سندھ میں بھٹو قبیلے کو تالپوروں کے دربار میں اسی لیے سپہ گری کی ذمہ داری سونپی گئی کہ یہ قبیلہ راجپوت تاریخ کے مطابق ایک عسکری قبیلہ تھا۔

ذوالفقار علی بھٹو کے والد شاہنواز بھٹو کا سندھ کی سیاست پر گہرا اثرورسوخ تھا۔ سندھ میں مسلمان اور ہندو جاگیرداروں کے درمیان اقتدار کی کشمکش تقریباً ایک سو سال قبل ابھری جب انگریز نے تاریخی طور پر دم توڑتے جاگیردارانہ نظام و سماج کو دودھ پلا پلا کر نیا جنم دیا۔ انگریزوں نے ایک طرف تالپور خاندانوں کی جاگیروں کو بحال رکھا اور دوسری طرف بلوچ قبیلوں کو نئی جاگیریں قائم کرنے کی حوصلہ افزائی کی۔ اس کے علاوہ پرانے سندھی قبائل کے سرداروں کو بھی جاگیر یں دیں اس لیے کہ وہ ان مراعات یافتہ مختلف جاگیردار خاندانوں کے ذریعے سندھ پر اپنا انتظامی کنٹرول کرنا چاہتے تھے۔

مسلم جاگیرداروں کی طرف سے ہندو جاگیرداروں کے خلاف سیاسی محاذآرائی کے خلاف پہلا محاذ جو قائم ہوا اس کا نام سندھ محمڈن ایسوسی ایشن تھا۔ 1884ء میں حسن علی آفندی نے سندھ سبھا قائم کی۔ اس تنظیم میں باہمی اختلاف کے نتیجے میں 1885ء میں کانگریس معرضِ وجود میں آئی جبکہ 1917ء میں سندھ مسلم لیگ قائم ہو ئی۔ سندھ کو بمبئی سے علیحدہ کرنے کی جدوجہد بھی سندھ کے جاگیرداروں کی طرف سے ایک سیاسی و سماجی کوشش تھی جس کے لیے سندھ کے مسلم جاگیرداروں نے بھرپور جدوجہد کی۔ اس میں سر شاہنواز بھٹو کا کردار کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ 15 نومبر 1932ء کو سر شاہنواز بھٹو نے ایوب کھوڑو اور میران محمد شاہ کے ساتھ مل کر سندھ آزاد کانفرنس تشکیل دی۔

اس کے بعد 12 جنوری 1934ء کو شاہنواز بھٹو نے سندھ پیپلز پارٹی قائم کی جس کے صدر خود شاہنواز بھٹو بنے۔ اس پارٹی میں دوسرے اہم سندھی مسلمان راہنمائوں میں نواب نبی بخش بھٹو (ممتاز بھٹو کے والد)، اللہ بخش سومرو، میران محمد شاہ، حاتم علوی، جی ایم سید، سید غلام نبی شاہ اور حاجی مولا بخش سومرو وغیرہ بھی شامل تھے۔ شاہنواز بھٹو کو سندھ کو بمبئی سے علیحدہ کروانے کے سبب سندھ کے اندر بے مثال شہرت ملی۔ ان کا یہ اقدام سندھ کے مسلمانوں کے لیے ایک سماجی فتح تھا جو ہندو مسلم کشمکش کے حوالے سے اپنی تاریخی اور سیاسی اہمیت رکھتا ہے۔ بعد میں سندھ کی بمبئی پریذیڈنسی سے علیحدگی پاکستان کے مطالبے کی ایک دلیل ثابت ہوئی۔

ذوالفقار علی بھٹو سندھ کے بااثر جاگیردار سیاستدان سر شاہنواز بھٹو کے گھر 5جنوری 1928ء کو پیدا ہوئے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی جاگیردار سیاستدان گھرانے میں پیدائش، تصویر کا ایک رخ ہے جیسا کہ خود ذوالفقار علی بھٹو نے 1970ء کے الیکشن جیتنے کے بعد ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ ’’ہرکوئی مجھ سے یہ سوال کرتا ہے کہ آپ ایک ریڈیکل ترقی پسند منشور لے کر الیکشن جیتے ہیں۔ آپ کا باپ ایک بڑا جاگیردار تھا، آپ غریبوں کے مسائل کو قریب سے نہیں جانتے لہٰذا آپ غریبوں کے مسائل کیسے حل کرپائیں گے؟ ‘‘تو ذوالفقار علی بھٹو نے آنکھوں میں آنسوئوں کے ساتھ کہا ’’ہر کوئی میرے والد کا حوالہ دیتا ہے جبکہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ میں ایک غریب ماں کا بھی بیٹا ہوں۔

میں جاگیردار سماج کے ظالمانہ کردار سے بخوبی آگاہ ہوں بلکہ میں خود جاگیردارانہ استحصال کا ایک وقت تک نشانہ بنتا رہا ہوں اور مجھے معلوم نہیں ہے کہ استحصال زدہ طبقے کے مسائل اور حل کیا ہیں؟‘‘ ذوالفقار علی بھٹو کی والدہ سندھ کے متوسط گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں۔ خورشید بیگم، شاہنواز بھٹو کی دوسری بیوی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی شخصیت پر اپنی ماں کی گہری چھاپ ہی کا نتیجہ تھا کہ وہ ایک عوامی لیڈر کے طور پر جانے گئے۔
کچھ عرصہ تک وہ پسماندہ گاؤں گڑھی خدا بخش بھٹو کی مسجد میں ہاریوں کے بچوں کے ساتھ زیرِتعلیم رہے۔ جب ذوالفقارعلی بھٹو کی عمر 9 سال کے قریب تھی تو ان کے والدین نے ان کو بمبئی منتقل کیا۔ تعلیم کا پہلا مرحلہ انہوں نے بمبئی کے کیتھڈرل ہائی سکول سے مکمل کیا جہاں ذوالفقارعلی بھٹو کا امیر گھرانوں کے بچوں کے ساتھ تعلقات کا آغاز ہوا۔

جب ذوالفقارعلی بھٹو بمبئی گئے اس وقت وہ ایک دیہاتی شخصیت کے مالک تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے بچپن کے دوست پیلو مودی نے مجھے ایک ملاقات میں بتایا کہ ’’ان کے لباس سے ظاہر ہوتا تھا کہ گھر میں ان کی طرف کوئی خاص توجہ نہ دی جاتی تھی اور میری ذلفی کی دوستی کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی تھی کہ وہ مجھ سے کپڑوں کے بارے میں، اٹھنے بیٹھنے اور شہری رسم و رواج اور آداب کے سلسلے میں بلا جھجک مشورے لیتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ ذلفی اعلیٰ تعلیم کے دوران تک میرا ساتھی رہا اور میں اس کو خوب لتاڑا کرتا تھا لیکن وہ میرے حد سے زیادہ مذاق کو بھی خوشی سے برداشت کرتا تھا چونکہ ذلفی یہ سمجھتا تھا کہ میں (پیلو مودی) اس کا مخلص دوست ہوں لہٰذا وہ میرا خصوصی طور پر لحاظ کرتا تھا۔‘‘

بمبئی میں دورانِ تعلیم ہی ذوالفقارعلی بھٹو پاکستان کے بانی محمدعلی جناح کے بھرپور مداح کے طور پر اپنے دوستوں میں جانے جاتے تھے۔ وہ کھل کر آزاد اور خودمختار پاکستان کے حامی تھے اور ذوالفقارعلی بھٹو نظریاتی طور پر سوشلسٹ نظریات اختیار کرچکے تھے جس کا ذکر پیلو مودی نے اپنی کتاب میں بھی کیا ہے۔ 1948ء میں ذوالفقارعلی بھٹو امریکہ چلے گئے وہاں انہوں نے یونیورسٹی آف سدرن کیلیفورنیا میں داخلہ لیا۔ اس کے بعد یونیورسٹی آف کیلیفورنیا چلے گئے جہاں سے گریجوایشن کی۔ کیلیفورنیا برکلے سٹی میں ذوالفقارعلی بھٹو نے طلباء کی سیاسی سرگرمیوں میں بھی بھرپور حصہ لیا۔ یہاں ذوالفقارعلی بھٹو نے سٹوڈنٹس یونین کونسل کی سیٹ پر الیکشن لڑا جو وہ جیت گئے

۔یہ کسی ایشیائی کا پہلا اعزاز تھا کہ وہ برکلے سٹوڈنٹس یونین کونسل کے رکن منتخب ہوئے۔ برکلے کے بعد ذوالفقارعلی بھٹو آکسفورڈ چلے گئے جہاں انہوں نے کرائسٹ چرچ کالج سے پولیٹیکل سائنس میں ماسٹر ڈگری حاصل کی۔ امریکہ اور برطانیہ میں حصولِ تعلیم کے دوران بھٹو مختلف بین الاقوامی موضوعات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کرتے تھے۔ دورانِ تعلیم ہی انہوں نے فلسطینیوں کی حمایت میں ایک پمفلٹ شائع کیا جس میں فلسطینیوں کے علیحدہ وطن کی بھرپور حمایت کی گئی تھی اور صیہونیت کی شدت کے ساتھ مخالفت، جس پر ذوالفقارعلی بھٹو کو جنونی یہودیوں کی طرف سے دھمکی آمیز خطوط بھی ملے۔ ذوالفقارعلی بھٹو جوانی میں جن سیاسی رجحانات کی طرف مائل ہورہے تھے اس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے وہ پھانسی کی کوٹھری میں اپنی کتاب ’’اگر مجھے قتل کردیا گیا‘‘ If I Am Assassinatedمیں لکھتے ہیں:’’5 جنوری 1948ء کو میرے اکیسویں جنم دن پر مجھے لاس اینجلز (امریکہ) میں اپنے آبائی مقام لاڑکانہ سے بیش قیمت تحفے ملے۔ نپولین بونا پارٹ کی پانچ جلدوں پر مشتمل بیش قیمت سوانح عمری تھی جسے سلون نے قلمبند کیا تھا اور دوسرا ایک نہایت کم قیمت کتابچہ تھا، کارل مارکس کا کمیونسٹ مینی فیسٹو۔نپولین سے میں نے اقتدار کی سیاست سیکھی اور اس کم قیمت کتابچے سے میں نے غربت کی سیاست کا درس حاصل کیا اور وہ کتابچہ ان سطروں پر ختم ہوتا ہے:
’’دنیا بھر کے مزدورو! ایک ہوجائو، تم اپنی زنجیروں کے سوا کیا کھو سکتے ہو جبکہ جیتنے کے لیے تمہارے سامنے دنیا پڑی ہے۔‘‘

پیلومودی کے بقول ذلفی کا اصرار تھا کہ مغرب میں شفٹ ہونے سے پہلے ہی وہ سوشلسٹ نظریات اپنا چکا تھا جس کی وجہ میرے صوبے (سندھ) میں پھیلی ہوئی غربت ہے۔ ذوالفقارعلی بھٹو پروفیسر ہیرالڈ لاسکی کی تقاریر بھی سن چکے تھے بلکہ دورانِ تعلیم پروفیسر لاسکی کی متعدد کتابوں کا مطالعہ بھی کیا جن میں سرِفہرست ’’دی گریمر آف پالیٹکس‘‘ بھی شامل ہے۔ 1948ء میں ذوالفقارعلی بھٹو نے کیلیفورنیا یونیورسٹی میں ایک تقریر بعنوان ’’دی اسلامک ہیری ٹیج‘‘ کی جس میں انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ مسلم ممالک کے لیے سوشلزم ناگزیر ہے۔ لِنکنزاِن میں ذوالفقارعلی بھٹو نے قانون کی تعلیم مکمل کی۔ اس کے بعد لا فیکلٹی آف سائوتھ ہملٹن میں ان کو بین الاقوامی قانون کے لیکچرر کی ملازمت مل گئی جو کہ ایک بڑا علمی اعزاز تھا۔

اس دوران ذوالفقارعلی بھٹو کے والد شاہنواز بھٹو بیماری کا شکار ہوئے جس کے سبب وہ لیکچرر شپ برقرار نہ رکھ سکے اور یوں وہ مزید تعلیمی سرگرمیوں کو ادھورا چھوڑ کر وطن لوٹ آئے حالانکہ اس دوران ان کو کنگس کالج کیمبرج میں داخلہ مل چکا تھا۔ نومبر 1953ء میںذوالفقار علی بھٹو کراچی پہنچ گئے جہاں انہوں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا۔ کراچی میں ذوالفقارعلی بھٹو نے وکالت کا آغاز رام چندانی جیسے معروف وکیل کے شاگرد کے طور پر کیا لیکن ان کی توجہ وکالت کے پیشے پر مرکوز نہ ہوسکی حالانکہ انہوں نے چیف جسٹس کانسٹنٹائن سے بھرپور داد حاصل کی اور چیف جسٹس نے پیشگوئی کی کہ آپ ایک قابل وکیل بنیں گے۔ لیکن بھٹو نے کہا کہ میں وکالت نہیں سیاست کا ارادہ رکھتا ہوں۔

اس طرح بھٹو نے قوم کا مقدمہ لڑنے کا فیصلہ کیا اور دلچسپ بات دیکھیں کہ دورانِ وکالت ذوالفقارعلی بھٹو کے پاس قتل کے جتنے بھی مقدمات آئے ان میں ذوالفقارعلی بھٹو کو مکمل کامیابی حاصل ہوئی۔ اس دوران ذوالفقارعلی بھٹو نے کچھ عرصہ کے لیے سندھ مسلم لاء کالج میں بحیثیت استاد کے کانسٹی ٹیوشنل لاء بھی پڑھایا۔ (ذوالفقار علی بھٹو کی کتاب میرا لہو کی پانچویں قسط آئندہ ہفتے ملاحظہ فرمائیں)

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں