زندہ بھٹو
پاکستان کی سیاست میں کوئی بھی سیاسی راہنما ذوالفقار علی بھٹو کی طرح اثرات مرتب نہیں کر پایا۔ جس کم عمری میں انہوں نے سیاسی شہرت حاصل کی وہ کسی بھی دوسرے لیڈر کو میسر نہ ہو سکی۔ ان کی سیاسی زندگی ایک بھرپور سیاسی زندگی تھی، اور زندگی کا سفر بھی انہوں نے بڑی تیز رفتاری کے ساتھ طے کیا۔
حکومت کے ایوانوں میں ایک نوجوان وزیر کے طور پر نامزدگی سے لے کر وزارتِ خارجہ کے عہدے تک یہ ان کا بھرپور سیاسی مرحلہ تھا، اور جب وہ وزارتِ خارجہ سے مستعفی ہو کر عوام میں آئے تو وہ پاکستان کے مقبول ترین راہنما کے طور پر جانے گئے تھے۔ انہوں نے پاکستان کی پہلی عوامی تحریک (1966-67ء) کی بھی قیادت کی، جس میں طلباء ، نوجوان، عورتیں اور مزدور شامل تھے۔ پاکستان میں اس جیسی انقلابی تحریک کی قیادت کا اعزاز بھی کسی اور کو حاصل نہ ہو سکا اور پھر انہوں نے پاکستان میں عوام کی طاقت پرایک انمٹ سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی۔ اس جماعت نے جس قدر مقبولیت حاصل کی وہ اعزاز بھی کسی اور راہنما کو حاصل نہ ہو سکا۔ پھر وہ ان ہی عوامی بنیادوں پر پاکستان کی پہلی منتخب عوامی حکومت بنانے میں کامیاب ہوئے۔ سیاست اور زندگی کا یہ سفر انہوں نے کم عمری میں طے کیا۔ پاکستان کے علاوہ ان کی مقبولیت کا ستارہ مشرقِ وسطیٰ، ایشیا اور افریقہ سمیت دنیا کے کونے کونے میں چمکنے لگا۔
جہاں شہرت اور مقبولیت ذوالفقار علی بھٹو کے حصے میں آئی، دوسری طرف اسی انتہا کے ساتھ ان کی کردارکشی بھی کی گئی، جس میں ملک کے بالائی طبقات شامل تھے، جنہیں ذوالفقار علی بھٹو کی عوامی سیاست کے نتیجے میںزک پہنچی۔ ان عوامی خدمات کے ردِعمل کے نتیجے میں ان کو ایک باقاعدہ عالمی سازش کے تحت قتل کرنے کا منصوبہ تیار کیا گیا، جس کو جنرل ضیاء الحق نے ’’پایۂ تکمیل‘‘ تک پہنچایا۔
پاکستان میں عوامی رائے یہی ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کو غیر ملکی طاقت نے اس لیے اقتدار سے ہٹانے اور قتل کرنے کی منصوبہ بندی کی کہ انہوں نے پاکستان کو ایک نیوکلیئر طاقت بنایا، جوکہ غلط نہیں۔ مغرب اور خصوصاً امریکہ کے لیے یہ ایک انتہا ئی نا خوش گوار لمحہ تھا کہ جناب ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کو ایک نیوکلیئر طاقت بنانے میں مصروف تھے، مگر امریکہ کے نزدیک جناب بھٹو کے ’’جرائم‘‘ اس کے علاوہ بھی تھے، جس میں 1973 ء کی جنگِ رمضان (جنگِ اسرائیل۔مصروشام) میں ذوالفقار علی بھٹو کا کردار بڑا اہم ہے۔ میرے مطالعے میں یہ بات آئی ہے کہ امریکیوں اور صیہونیوں نے مسٹر بھٹو کو قتل کرنے کا حتمی فیصلہ جنگِ رمضان کے دوران کر لیا تھا۔ چونکہ جہاں مسٹر بھٹو نے اس جنگ میں عربوں کی سیاسی اور عسکری حمایت کی تھی وہیں مسٹر بھٹو ہی نے تیل پیدا کرنے والے ممالک کو اس بات کی ترغیب دی تھی کہ وہ مغرب کو تیل کی سپلائی، بطور ہتھیار بند کردیں۔Oil as a Weapon امریکیوں اور مغرب کے لیے ایک غیر متوقع حکمتِ عملی تھی۔
تیل کی عدم سپلائی نے مغرب کی مشینی زندگی کو جامد کر کے رکھ دیا تھا جس کی بازگشت اب بھی مغرب میں سنی جا سکتی ہے۔ امریکہ میں ایک عام شہری Oil Embargo کے واقعے کو اپنی تاریخ کا نہ بھلانے والا واقعہ تصور کرتا ہے۔ جس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ مغرب اور خصوصاً امریکہ کے لیے تیل کس قدر اہم چیز ہے۔ جس کا ثبوت سرد جنگ کے خاتمے کے بعد مشرقِ وسطیٰ میں برپا کی جانے والی دونوں یکطرفہ خلیجی جنگیں بھی ہیں جن میں امریکہ نے بھرپور انداز میں اپنے آپ کو اپنے دیگر اتحادیوں کے ہمراہ داخل کر رکھا ہے۔
اب یہ حقائق منظرِ عام پر آنے شروع ہو گئے ہیں کہ سرد جنگ کے عروج میں امریکہ کی قومی سلامتی کے سابق مشیر برزنسکی (Zbigniew Brzezinski) نے یہ منصوبہ بندی کی تھی کہ کسی طرح سوویت یونین افغانستان میں فوجی مداخلت کرے اور پھر امریکہ کو یہ موقع مل سکے گا کہ وہ سوویت یونین کی افغانستان میں فوجی مداخلت کے خلاف غیر اعلان شدہ جنگ کا آغاز کر دے۔ اس کے لیے پاکستان میں ایسی حکومت امریکہ کی پالیسی کے خلاف ایک رکاوٹ ثابت ہو سکتی تھی جو خطے میں امریکی مفادات کے خلاف ایک خودمختار مؤقف اختیار کرے۔ لہٰذا ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت ایک ایسی ہی حکومت تھی۔اس لیے بھٹو حکومت کے خلاف 1977 ء میں پی این اے کے نام سے اسلامی نظام/نظامِ مصطفی کے نعرے پر تحریک کا آغاز کیا گیا۔
جس کا مقصد صرف اور صرف بھٹو حکومت کا خاتمہ تھا۔ یہ تحریک ایک مذہبی بنیاد پرست تحریک تھی، جو امریکہ کے سرمائے اور اس کی سیاسی سپورٹ پر تشکیل دی گئی، اس لحاظ سے ہم عصر سیاسی تاریخ میں امریکہ نے تشدد پر مبنی پہلی مذہبی بنیاد پرست تحریک کو تشکیل دیا۔ جس کے نتیجے میں ایک قوم پرست ،ترقی پسند اور عوامی راہنما ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا خاتمہ کیا گیا۔ مارشل لاء کا نفاذ اس تحریک کا دوسرا عملی منصوبہ تھا، جس نے مستقبل میں امریکی مفادات کو خطے میں تحفظ فراہم کرنا تھا۔
5 جولائی 1977 ء کو بھٹو کی منتخب حکومت کا خاتمہ کیا گیا۔ 4 اپریل 1979 ء کو ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا اور اس دوران پورے ملک اور خطے میں امریکیوں نے جنرل ضیاء الحق کی قیادت میں مذہبی بنیاد پرستی کی بساط قائم کی اور اسی دوران افغانستان میں سوویت یونین کی افواج داخل ہو گئیں۔
جس کے خلاف امریکیوں نے جنرل ضیاء کی قیادت میں پراکسی وار کا آغاز کیا جس کا وہ پہلے تجربہ انگولا، صومالیہ اور ایتھوپیا میں کر چکے تھے اور اس کے لیے امریکیوں نے مذہب کی بنیاد پر مسلم ممالک سے مجاہدین کو بھرتی اور ان کی مسلح ٹریننگ کا اہتمام کیا۔ اسلامی مجاہدین کو شروع میں مصرسے سوویت ساخت کے ہتھیار فراہم کیے گئے اور بعد میں اسرائیل سمیت تمام امریکی اتحادیوں کے ہتھیار نام نہاد افغان جہاد میں استعمال کیے گئے۔ یوں جہاد کے نام پر گوریلا جنگ کی گئی، جس کو امریکہ اور مغرب کے پالیسی سازوں اور میڈیا نے ’’جہاد‘‘ کے نام سے متعارف کروایا۔افغانستان کی کمیونسٹ حکومت کے خلاف جنگ لڑنے والے یہ بنیاد پرست’’جہادی‘‘ امریکہ کے اہم اتحادی تھے اور ان کی فلموں کے رومانوی کردار بھی، جو سوویت یونین جیسی ’’ملحد‘‘ طاقت کے خلاف افغانستان میں ’’مقدس جنگ‘‘ لڑ رہے تھے۔ ضیاء الحق اس مقدس جنگ میں ’’ہراول قائد‘‘ کے طور پر شامل تھا۔
جس نے اس منصوبے کے لیے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا خاتمہ اور ان کا جسمانی خاتمہ بھی کر دیا تھا۔ چونکہ امریکیوں کو یہ پورا یقین تھا کہ اگر پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں خطے کی سیاست میں سرگرم رہا تو وہ سوویت یونین کے خلاف اس فیصلہ کن جنگ میں داخل نہیں ہو گا۔ جس کا میدانِ جنگ (افغانستان)امریکہ نے طے کیا تھا۔ چونکہ مغرب طاقت کے اس ابھرتے ہوئے توازن کو محسوس کر رہا تھا، جو ذوالفقار علی بھٹو کی سیاست کے سبب خطے میں قائم ہو رہا تھا اس لیے بھٹو حکومت کا خاتمہ امریکہ کی خطے میں پالیسی کا اہم ستون تھا۔
اسلامی دنیا اور تیسری دنیا کا اتحاد بھٹو کی سیاست کا اہم ستون تھا جو کہ امریکہ کو کسی طور پر بھی قبول نہیں تھا۔ اسلامی ممالک کے مابین، اقتصادی، معاشی، ثقافتی اور عسکری اتحاد کے لیے جناب بھٹو کی کوششیں ان کے وزارتِ خارجہ کے زمانے میں ہی شروع ہوئی تھیں۔ 19 اپریل 1966 ء کو جب شاہ فیصل نے پاکستان کا دورہ کیا تو مسٹر بھٹو نے کہا:
“Pakistan agreed in principle to the idea of an Islamic Summit, but the practical application of the principle would have to be considered in great depth.”
مسٹر بھٹو کے اسلامی دنیا کے اتحاد اور نیوکلیئر توانائی کے حصول کے بارے میں مغرب کیا Vision رکھتا ہے ،وہ دلچسپی کا باعث ہے۔ امریکہ کے معروف سکالر سیموئیل پال ہنٹنگٹن جنہوں نے 1997ء میں معروف اور متنازعہ کتابThe Clash of Civilizations and the Remaking of World Order لکھی وہ اس کتاب کے حتمی تجزیے کے آخری صفحات پر رقمطراز ہیں:
“Acceptance of these rules and of a world with greater equality among civilizations will not be easy for the West in its dominant role. In such a world, for instance, core states may well view it as their prerogative to possess nuclear weapons and to deny such weapons to other members of their civilization. Look back on this efforts to develop “full nuclear capability” for Pakistan. Zulfikar Ali Bhutto justified those efforts:
We know that Israel and South Africa have full nuclear capability. The Christian, Jewish and Hindu civilizations have this capability. Only the Islamic civilization was without it, but that position was about to
change”.
(The Clash of Civilizations and the Remaking of World Order. p.317)
ہنٹنگٹن نے اپنی اس کتاب،جس میں انہوں نے تہذیبوں کے مابین تصادم کا تھیسز پیش کیا ہے ،کے حتمی تجزیے میں جناب بھٹو کے اس نکتے کا حوالہ اپنی دلیل کے طور پر دیا ہے، جو مسٹر بھٹو نے دورانِ اسیری اپنی کتاب If I Am Assassinated میں پیش کیا تھا ،کہ دنیا کی مختلف تہذیبوں کے درمیان ترقی اور طاقت کا عدم توازن موجود ہے۔ اس کے لیے جناب ذوالفقار علی بھٹو نے نیوکلیئر توانائی کو مثال کے طور پر پیش کیا ہے۔ جس کی اہمیت کا اندازہ آج کی عالمی صورتحال میں کرنا مشکل نہیں۔
جہاں تاریخ کو مسخ کرنے کا عمل عالمی سطح پر جاری ہے وہاں یہ عمل پاکستان میں بھی نہایت بھدے انداز میں کیا جا رہا ہے۔ یہاں تاریخ کے عمل کو روکا بھی جا رہا ہے اور اس کے ساتھ ہی تاریخ کو مسخ کرنے کا عمل ریاستی سطح پر جاری ہے، اور اس کا نشانہ ذوالفقار علی بھٹو بھی ہیں۔ذوالفقار علی بھٹو کی سیاست کے شاندار ابواب جان بوجھ کر ہماری تاریخ سے مٹائے جا رہے ہیں۔ اس میں صرف ریاست ہی شامل نہیں اور نہ ہی صرف رجعت پسند قوتیں، بلکہ وہ سیاسی گروہ بھی شامل ہیں جو لبرل اور روشن خیالی کے دعویدار ہیں، نیز ذوالفقار علی بھٹو کے نام پر سیاست کرنے والی جماعت کے کئی اہم راہنما بھی کیونکہ وہ مسٹر بھٹو کی سیاست کو اپنے طبقات کے لیے آج بھی خطرہ تصور کرتے ہیں جبکہ جناب بھٹو کے حوالے سے پاکستان یا دنیا کے کسی بھی ملک سے ابھی تک کوئی بھی جامع تحقیق سامنے نہیں آئی ۔
یوں پاکستان اور عالمی سیاست کا یہ شاندار کردار تاریخ کے اوراق سے شعوری طور پر اوجھل کیا جا رہا ہے۔ اس لیے کہ تاریخ نویسی طاقتور قوتوں کی سرپرستی میں کی جاتی ہے جیسا کہ George Orwell کہتا ہے کہ:
“He who controls the past, controls the future. He who controls the
present ,controls the past.”
جبکہ معروف امریکی مورخ ہاورڈزن کہتے ہیں کہ:
“In other words those who dominate our society are in a position to write our histories.”
ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد ضیاء الحق نے آزادیٔ اظہار پرجو پابندیاں لگائیں، اس کا اندازہ آج کی نوجوان نسل کو ضرور ہونا چاہیے ۔ ان پابندیوں کا نشانہ روزمرہ برپا ہونے والے حقائق اور واقعات بھی تھے، مگر سب سے زیادہ کرب کی بات یہ ہے کہ وہ زمانہ تھا جب اخبارات وجرائد میں دار پر لٹکائے گئے عوامی راہنما ذوالفقار علی بھٹو کی تصویر شائع کرنے پر پابندی لگا دی گئی اور تواور ان پابندیوں کی حد یہ تھی کہ ذوالفقار علی بھٹو کا لفظ/نام شائع کرنا بھی ممنوع ٹھہرا اور اگر کہیں کسی تحریر میں با امرِ مجبوری ذوالفقار علی بھٹو لکھنا انتہائی ضروری ہوتا تو سابق وزیرِاعظم لکھنے پر اکتفا کیا جاتا، ملک میں چونکہ مسٹر بھٹو کے حوالے سے Polarization تھی اس لیے جو رسائل و جرائد اور اخبارات مسٹر بھٹو کی سیاسی، ذاتی اور اخلاقی کردار کشی کرنا چاہتے ان کو کھلی چھٹی تھی۔ ان مضامین اور تحریروں میں مسٹر بھٹو کو کافر، ملحد، ملک توڑنے والا، ظالم قاتل جیسے القابات سے نوازا جاتا ۔یہ سارا کچھ حکومتی سرپرستی میں ہوا۔ پاکستان کی مختصر تاریخ نے اظہارِ آزادی کے حوالے سے شاید ایسا کڑا زمانہ کبھی نہیں دیکھا ۔
٭لیکن جیسا کہ خود جناب ذوالفقار علی بھٹو نے عدالت میں اپنی صفائی بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ:
’’مجھے علم ہے کہ آج میں عدالت کے کٹہرے میں ایک ملزم کے طور پر کیوں کھڑا کیا گیا ہوں، خود عدالت کو بھی ان حقائق کا علم ہے اور ان قوتوں کو بھی جنہوں نے یہ سارا اہتمام کیا ہے۔ تاریخ ایک دو دھاری تلوار ہے جس کی زد سے کوئی نہیں بچ سکتا اور وہ وقت آئے گا جب تاریخ فیصلہ کرے گی کہ میرا جرم کیا تھا اور تاریخ میری صفائی کا مقدمہ خود پیش کرے گی۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں