نیلما ناہید درانی کی ادب کہانی، تحریر و تحقیق: ظفر معین بلے جعفری

مولائے کائنات حضرت علی مرتضیٰ علیہ السلام سے پوچھا گیا کہ لوگ کوئی حیثیت ، منصب ، اختیار اور دولت ملنے پر بدل کیوں جاتے ہیں تو آپ نے جواب دیا کہ لوگ بدلتے نہیں، ان کے اندر کی شخصیت سامنے آجاتی ہے۔یہ بات مجھے محترمہ نیلما ناہید درانی کی ایک یادگار تصویر دیکھ کریاد آئی ہے، جوپولیس افسر کی وردی میں ہے۔ جی ہاں یہ وہ پہلی خاتون پولیس افسر ہیں جو ترقی کرتے کرتے ایس ایس پی کے عہدے تک پہنچیں۔پولیس کی وردی میں ملبوس ان کا رعب و دبدبہ کم نہیں تھا لیکن جس کسی کو ان کے سامنے اپنا مسئلہ پیش کرنے کا موقع ملا،

وہ گواہی دے گا کہ اس وردی کے اندر بھی انسانیت سے محبت کرنے والی شخصیت موجود تھی اور پریشاں حال لوگوں کواس خاتون پولیس افسر سے مل کر اپنے مسئلے کےحل کی امید روشن نظرآنے لگتی تھی۔نیلما ناہید درانی نے پولیس کےمنصب پر پہنچنے کےبعد بھی خود کو مخلوق ِ خدا سے افضل اور برتر نہیں سمجھا بلکہ یہی جاناکہ اللہ کاشکر ہے کہ اس نے ایسا شعبہ اور منصب دیاہے کہ مصیبت زدگان کوانصاف دلانے میں ان کی مددکرسکوں اور حتی الوسع انہوں نے اس کی کوشش بھی کی۔کسی سفارش کےبغیربھی اپنے دروازے پر آنے والوں کی بات تسلی کے ساتھ سنی اوربلا توقف ضروری کارروائی بھی کی۔انفرادی اور اجتماعی سطح پروہ اپنے منصب اور اختیارکومفاد ِ عامہ کے وسیع تر مفاد کیلئے بروئےکارلائیں۔زلزلہ اور سیلاب زدگان کو کھلے آسمان تلے امداد کامنتظر دیکھاتو چندہ مہم شروع کردی اور صدارتی فنڈ میں بھاری بھرکم رقوم جمع کراکے یہ ثابت کیا کہ پولیس کی وردی کے اندر بھی کوئی فلاح کاراور احترام ِ آدمیت کاعلمبردار ہوسکتاہے۔وہ خدمت خلق کیلئے زبانی جمع خرچ کی قائل نہیں تھیں بلکہ لوگوں میں بھی یہی جذبہ اور یہی شوق جگاتی رہیں

اُداس لوگوں سے پیار کرنا کوئی تو سیکھے

سفید لمحوں میں رنگ بھرنا کوئی تو سیکھے

نیلما ناہید درانی نے اداس لوگوں سے پیار کرنا اور سفید لمحوں میں رنگ بھر نے کاہنر خوب سیکھا اور اپنے حلقہء احباب کوسکھایا ہے۔انہوں نے اپنے فکروعمل سے محبتوں کےجوچراغ روشن کئے ،ان چراغوں سے مزید چراغ روشن ہوئےاورہمارے ارد گرد پھیلنے والا اجالا گواہی دے رہاہےکہ چراغوں سے چراغ جلانے کاعمل جاری رہا تو اندھیرے کبھی ہمارا مقدر نہیں بن سکتے۔

نیلما ناہید درانی دنیائے ادب کی معروف شخصیت ہیں ۔ان کے سفر کی بہت سی جہتیں ہیں اور انہوں نے ہر جہت میں گہرے نقوش چھوڑے ہیں ۔اردو، پنجابی اور فارسی زبانوں پر انہیں دسترس حاصل ہے اور نثراور شاعری کی کئی مقبول اصناف میں انہوں نے جو کتابیں لکھی ہیں ،وہ ان کے علمی تبحر، فکری تعمق اورخیالات کے ترفع کی آئینہ دار ہیں ۔ان کے فکرو خیال کا کینوس وسیع ہونے کاایک سبب یہ بھی ہے کہ انہوں نے دیس دیس کی سیر کی ہے۔ادیبوں ، شاعروں ، تخلیق کاروں اور دانش وروں سے ملتی رہی ہیں ۔مشرقی اور مغربی ادب ِعالیہ سے بھی عرفان کے موتی چُنے ہیں۔ان کے خوبصورت سفر ناموں میں ان رنگوں کی چھوٹ دیکھی جاسکتی ہےجوانہوں نے دیس دیس میں رہتے ہوئےاپنی نظروں میں سمارکھے ہیں ۔محترمہ نیلماناہید درانی نے سفر نامے بھی اردو اور پنجابی دونوں زبانوں میں لکھے ہیں۔پنجابی زبان میں سفرنامہ ء جاپان لکھاہے اور اس سفرنامے”چڑھدے سورج دی دھرتی”کی بنیاد پر انہوں نے ارباب ِ علم وادب سے بھی خوب داد سمیٹی ہے۔ چاند، چاندنی، چندی گڑھ محترمہ نیلما ناہید درانی کاخوبصورت اردو سفر نامہ ہے۔اسے پڑھتے ہوئےایسا محسوس ہوتاہے کہ اس سفر میں ہم قدم بہ قدم ان کے ساتھ ساتھ ہیں ۔

نیلما ناہید درانی کےساتھ ہمارے گھرانے کی بہت سی یادیں وابستہ ہیں ۔ میں نے ان کی شخصیت ،فن ،شاعری اورافسانہ نگاری کےبارے ہی میں بہت کچھ نہیں سنا، انہیں براہ ِ راست بھی سنا ہے۔1980سے 1990 کی دہائی کی بات ہے۔میرے والد بزرگوار سید فخرالدین بلے نے ادبی اور ثقافتی تنظیم قافلہ بنارکھی تھی ۔ اس قافلے کے پڑاءو بڑی باقاعدگی کے ساتھشادمان لاہور میں بلے ہاءوس میں ہوا کرتے تھے۔ اشفاق احمد، احمدندیم قاسمی، ڈاکٹر وزیرآغا، بیدار سرمدی، میرزاادیب ، ڈاکٹرانورسدید، امجد اسلام امجد ، عطاالحق قاسمی، حسن رضوی ، ظفرعلی راجہ ، بانوقدسیہ ، نسرین قریشی ، سارہ ہاشمی ۔ افضل توصیف ۔ شمع خالد ۔ عذرا اصغر ۔ شبہ طراز۔ منصورہ احمد ۔ بیگم شہناز منور سعید۔ محترمہ عطیہ خلیل عرب۔ سیماپیروز ، مرتضیٰ برلاس، بشریٰ رحمان ، کلیم عثمانی، اصغر ندیم سید، انتظار حسین، طفیل ہوشیارپوری، قتیل شفائی اور علامہ غلام شبیربخاری، سمیت اہل ِ ادب بڑی تعداد میں آتے اور اپنے فن پاروں سے ضیافت ِ طبع کااہتمام کیاکرتے تھے۔ قافلے کی ایسی ہی محفلوں میں محترمہ نیلما ناہید درانی نے بھی کئی باراپنے خوبصورت افسانے اور دیگر تخلیقات پیش کرکےارباب ِ ادب سے خوب داد و تحسین سمیٹی۔قافلہ تنظیم کے ماہانہ پڑاءو کی یادوں کے نقوش آج بھی میرے دل و دماغ میں تازہ ہیں اور نیلماناہید درانی بھی ان خوشگوار یادوں کویقیناً ابھی تک بھلا نہیں پائی ہوں گی۔

نیلما ناہید درانی

کے فکر و خیال کے نقوش بڑے دلکش پیرایوں میں ہمارے سامنے آئے ہیں ۔کہیں انہوں نےشاعرہ کی حیثیت میں اپنے رنگ بکھیرے ہیں ، کہیں کالم نگاربن کر اپنے دل کی باتوں کوزبان دی ہے۔کہیں ان کی تحریرمیں دکھی انسانیت سے ہمدردی رکھنے والا دل دھڑکتا ہےاور کہیں کہیں وہ “قطرہ قطرہ عشق ” پیتی اور”اداس لوگوں سے پیارکرنا “سکھاتی نظر آتی ہیں۔نیلما ناہید درانی ایک ایسی ادبی شخصیت ہیں ، جن کے فن پاروں کی شہرت پاکستان اور بھارت تک محدود نہیں بلکہ انہوں نے دیس دیس میں دھوم مچارکھی ہے ۔ اسی لئے انہیں اعزازات بھی صرف اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اداروں نے نہیں دئیے بلکہ انہوں نے عالمی سطح پر بھی اعزازات سمیٹے ہیں ۔انہیں 2004ء میں گورنر پنجاب کی جانب سے گولڈ میڈل دیا گیا اورابھی یہ اعزاز اپنے نام کرنےپر تالیوں کی گونج فضاءوں میں موجود تھی کہ اگلے ہی برس 2005ء میں وزیراعظم پاکستان کی طرف سےانہیں فاطمہ جناح گولڈ میڈل سے نوازا گیا۔ یکم دسمبر2010ان کی زندگی کاایک یادگار دن اس لئے بھی ہے کہ سوڈان میں شعری مقابلے میں انہوں نے میدان مار لیا تھا اور اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے کی طرف سے انہیں اول انعام کامستحق قراردیاگیاتھا ۔

دختر ِ لاہور نیلما ناہید درانی نے داتا کی نگری میں 15ویں اکتوبر 1955ء کو آنکھ کھولی ۔آغا اعجاز درانی ان کے والد بزرگوار اور تہذیبی روایات کے پاسدار تھے۔چنانچہ علم و ادب کاذوق و شوق انہیں ورثے میں ملا۔ انہیں علم کی دولت سمیٹنے کا جنون تھا ، چنانچہ انہوں نے کہیں بریکیں نہیں لگائیں ۔پنجاب یونیورسٹی لاہور سے فارسی میں ایم اے کیا۔ حافظ ، پیر رومی،جامی اور بڑے بڑے فارسی استاد شاعروں کےکلام بلاغت نظام سے بصیرت حاصل کی ۔ایم اے صحافت کیاتوان کے اندر کی کالم نگار جاگ اٹھی ۔ انہوں نے قومی اخبارات و جرائد میں کالم لکھنے شروع کردئیے۔قلم میں کاٹ تھی۔معاشرتی خرابیوں کی نشان دہی کاموقع ہاتھ آگیا۔گویا معاشرے میں بگاڑ دور کرنے کابھوت بھی سر پر سوار ہوگیا۔پولیس افسری نے یہ سبق پڑھایااور سکھایا کہ نفرت مجرم سے نہیں جرم سےکرنی چاہئیے ۔اس پر حتی المقدور کوشاں رہیں ۔پنجابی مادری زبان تھی ۔ اس لئے ان کے اندر کی ادبی شخصیت نے ایم اے پنجابی کرنے پر اکسایا اور پھر بے خطر کود پڑا آتش ِ نمرود میں عشق ۔ ایم اے پنجابی کرنے پر انہوں نے اپنی تخلیق کا کانٹا تبدیل کردیا ۔پنجابی زبان میں شاعری تو پہلے ہی سے کررہی تھیں ، انہوں نے اپنی پنجابی شاعری کو محفوظ کرنے کا سلسلہ بھی شروع کردیا اور پنجابی زبان میں کئی شعری مجموعےاورغیرملکی سفرنامہ کاغذی پیرہن میں منظرعام پر لے آئیں ۔۔ چانن کتھے ہویا (پنجابی شعری مجموعہ) اوردکھ سبھا ایہ جگ(پنجابی شاعری کاگلدستہ )اور سفرنامہ ء جاپان چڑھ دے سورج دی دھرتی نےان کے اندر چھپی ہوئی فن کارہ کی دھوم مچادی اور یوں نیلما ناہید درانی نے اپنے تخلیقی ،نثری اور فکری کارنامے انجام دے کر پنجابی ادب کا ذوق و شوق رکھنے والوں کے دل جیت لئے ۔ان کے خوبصورت اردو کلام کاانتخاب آپ کی نذر کرنا چا ہتا ہوں ۔ اس لئے کہ ان کے شعری مجموعے میرے سامنے کھلے پڑے ہیں ۔

۔ ان میں سے کیا چنوں ؟ کسے چھوڑ دوں ؟ یہ مشکل کام ضرور ہے لیکن کوتاہی ہوگی اگر ان کےناموں اور ان میں سجے کلام کاذکر نہ کیاجائے۔ پنجابی شعری مجموعوں کا ذکر تو کیا جا چکا ہے ، بلجیئم میں بیس دن اور ٹھنڈی عورت دختر لاہور نیلما ناہید درانی کے افسانوں کے یہ دونوں مجموعے بھی بہت مقبول ہیں ۔ اب صرف ان کی ان کتابوں کےناموں کی فہرست ملاحظہ فرمائیے ۔

1۔ جب تک آنکھیں زندہ ہیں2۔جب نہر کنارے شام ڈھلی ۔3۔ تمہارا شہر کیسا ہے؟ 4۔واپسی کا سفر5۔نیلما کی غزلیں ۔6۔اداس لوگوں سے پیار کرنا۔7۔ قطرہ قطرہ عشق ۔ 8۔ جنگل جھیل اور میں ۔ 9۔ راستے میں گلاب رکھے ہیں ۔ان خوبصورت شعری مجموعوں میں محترمہ نیلماناہید درانی کی اردوشاعری موجود ہے اور گلشن ِ ادب کی فضائیں بھی ان کی خوشبو سے مہک رہی ہیں ۔ان کتابوں سے انتخاب کلام پیش کرنے سے پہلے مجھے اجازت دیجئے کہ میں اپنے چند اشعار آپ کی نذرکردوں جو برجستہ نوک ِ قلم پر آگئے ہیں۔

ادیبہ ، شاعرہ ، اقلیم ِ فن کی ہیں مہارانی
دُر ِ نایاب ہیں یہ نیلما ناہید درانی
کسی محفل میں آجائیں تو پڑ جاتی ہے جاں اُس میں
کسی محفل سے اُٹھ جائیں تو چھاجاتی ہے ویرانی
بہت سی ان کی جہتیں ہیں،بہت سےان کے پہلوہیں
کسی انداز میں ہو، دیدنی ہے رنگ افشانی
گزاری قطرہ قطرہ عشق پی کر زندگی اپنی
قیامت ان پہ جوگزری ،وہ ہم نےشعروں سے جانی
بتادو کیا ملا تم کو ظفر یہ شاعری پڑھ کر
معانی کے جہاں پائے، مضامیں کی فراوانی

محترمہ نیلما ناہید درانی کامنتخب کلام جو انہی کے شعری مجموعوں سے کشید کیا گیا ہے

سلام . . . . . . . . . . نیلما ناھید درانی

حسین غم نے ترے مجھ کو یوں سجایا ہے
ستارے دے کے مجھے آسماں بنایا ہے
یہ تیری آل کا صدقہ ہے میرے پاک نبی
قلم نصیب ہوا ہے علم اٹھایا ہے
یہ چاند تارے ہیں سارے یا خوں کے ڈرے ہیں
یا عکس کرب و بلا نے جہاں سجایا ہے
مجھے جہاں کے یذیدوں سے ڈر نہیں لگتا
کہ میرے گھر پہ مرے پنج تن کا سایہ ہے
حسین ابن علی پر سلام لازم ہے
کہ جس نے دیں کے لیے اپنا گھر لٹایا ہے

سلام . . . . . . . . . . . نیلما ناھید درانی

وفور شوق میں اس نے سفر ارادہ کیا
وہ پیاس اوڑھ کے سویا لہو لبادہ کیا
وہ کیسے لوگ تھے بچے کا صبر بھی تھا کمال
گلے پہ تیر بھی کھایا نا لب کشادہ کیا
مرے تھے حق کے لیے وہ تو کام انھی کا تھا
وہ آل احمد مرسل تھے پورا وعدہ کیا
وہ سر بریدہ بدن خوشبو یوں لٹاتے رہے
جو داستان وفا تھی اسے زیادہ کیا
وہ سر خوشی تھی محبت کی اور کیا شے تھی
ہوائے دشت کو جس نے مثال بادہ کیا

غزل نمبر.1. ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نیلما ناہید درانی

کیسے کیسے خواب دکھائے اور ستایا آنکھوں کو
دل کی ساری باتیں مانیں اور رلایا آنکھوں کو
ساجن کے سنگ ہولی کھیلی رنگ لگایا جیون کو
اس نے رنگ لگایا مجھ کو اور ہنسایا آنکھوں کو
ندی کنارے تان لگائی گردھر نے جب بنسی کی
چمپا موتی گہنے پہنے اور سجایا آنکھوں کو
جوگن بن کر ڈھونڈنے نکلی گلی گلی اس ساجن کو
ایک جھلک دکھلانے والا اتنا بھایا آنکھوں کو
ساون بھادوں برکھا بارش کے سنگ رہنا ٹھیک نہیں
دھوپ سہیلی کے سنگ کھیلو یہ سمجھایا آنکھوں کو

غزل نمبر.2. ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نیلما ناہید درانی

اداس لوگوں سے پیار کرنا کوئی تو سیکھے
سفید لمحوں میں رنگ بھرنا کوئی تو سیکھے
کوئی تو آئے خزاں میں پتے اگانے والا
گلوں کی خشبو کو قید کرنا کوئی تو سیکھے
کوئی دکھائے محبتوں کے سراب مجھ کو
مری نگاہوں سے بات کرنا کوئی تو سیکھے
کوئی تو آئے نئی رتوں کا پیام لے کر
اندھیری راتوں میں چاند بننا کوئی تو سیکھے
کوئی پیمبر کوئی امام زماں ہی آئے
اسیری ذہنوں میں سوچ بھرنا کوئی تو سیکھے

غزل نمبر.3. ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نیلما ناہید درانی

پلکوں پہ آنسوں کا گزر تھا تو وہ ملا
نیلے سمندروں کا سفر تھا تو وہ ملا
صحرا کی ریت نے مرے رستے جکڑ لیے
میری مسافتوں کا اجر تھا تو وہ ملا
شب بھر نماز پڑھتے رہے آنکھ نم کے ساتھ
میری ریاضتوں کا ثمر تھا تو وہ ملا
اس حسن بے مثال کو سوچا تھا بارہا
میری صداقتوں کا اثر تھا تو وہ ملا
یوں نیلما کوئی بھی زمانے میں خوش نہیں
اس کی عنایتوں کا ثمر تھا تو وہ ملا

غزل نمبر.4. ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نیلما ناہید درانی

یارب ترے فرعون سے ملنا ہے کسی دن
اس نیل کنارے مجھے چلنا ہے کسی دن
اک سامری نے مجھ پہ سحر پھونک دیا ہے
اک سانپ نے آکر مجھے ڈسنا ہے کسی دن
جس راہ پہ موسی و خضر چلتے رہے ہیں
سوچا نا تھا اس راہ پہ چلنا ہے کسی دن
جس کو بھی جمیلوں سے محبت ہے خدا ہے
اے عشق مجھے حد سے گزرنا ہے کسی دن
یوسف سے بھی ملنا ہے مجھے تیرے جہاں میں سنت پہ زلیخا کی بھی چلنا ہے کسی دن

غزل نمبر.5. ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نیلما ناہید درانی

ہر جگہ ہر راستے پر میرے کتنے سانپ ہیں
جس طرف بھی دیکھتی ہوں آگے کتنے سانپ ہیں
زہر نے میری رگوں کو کر دیا ہے نیلگوں
میرے دل میں خوں میں جاں میں پھیلے کتنے سانپ ہیں
شام ہوتی ہے تو آنگن میں چلے آتے ہیں وہ
گھر کی ہر دیوار و در سے لپٹے کتنے سانپ ہیں
سانپ چہرے سانپ لہجے سانپ سارے ہم قدم
اور لفظوں سے ٹپکتے رستے کتنے سانپ ہیں
میں جہاں جاتی ہوں میرے ساتھ ہی جاتے ہیں وہ
آستینوں میں چھپے بیٹھے ہیں کتنے سانپ ہیں

غزل نمبر.6. ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نیلما ناہید درانی

اک نیر تاباں کی شعائیں ہیں یہاں بھی
یہ میرے لیے کیسی فضائیں ہیں یہاں بھی
لینا تھا حساب اس نے مرا حشر کے دن جب
پھر میرے لیے کیسی سزائیں ہیں یہاں بھی
مقتل میں جدھر دیکھوں مرے اپنے کھڑے ہیں
یہ میرے لیے کیسی وفائیں ہیں یہاں بھی
کہتے ہیں جسے لوگ سبھی شہر خموشاں
گر غور کرو گے تو صدائیں ہیں یہاں بھی
لشکر ہیں یہ کس کے جو سبھی لوٹ رہے ہیں
خیمے بھی یہاں پر ہیں ردائیں ہیں یہاں بھی
دشمن کو خبر کر دو نہیں اس کی ضرورت
سب دوست یہاں پر ہیں جفائیں ہیں یہاں بھی
طوفان ہے آندھی ہے بڑی سخت گھڑی ہے
پر میرے لیے ماں کی دعائیں ہیں یہاں بھی

غزل نمبر.7. ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نیلما ناہید درانی

زندگی ہم نے کئی خواب سہانے دیکھے
کتنے پھولوں سے سجے کتنے زمانے دیکھے
عکس زندہ رہا پانی میں حسیں یادوں کا
نہر کے پاس سبھی گزرے زمانے دیکھے
کیسے گزرے تھے وہ لمحے تری تنہائی کے
ہم نے تو چاند ترے سارے ٹھکانے دیکھے
وہ جو اک پیڑ ہے تنہا وہ کبھی بولتا ہے
جانے والے سے کہو میرے فسانے دیکھے
کس قدر ہجر میں تڑپے ہیں اسے کیا معلوم جب بھی وہ لوٹا نئے اس کے بہانے دیکھے
لوگ کہتے ہیں زمانے نے بدل ڈالا اسے
ہم نے تو نیلما انداز پرانے دیکھے

غزل نمبر.8. ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نیلما ناہید درانی

غم کسی کا ہو انھیں آنسو بہانا چاہئے
میری آنکھوں کو تو رونے کا بہانا چاہئے
میں کسی بھی شہر سے گزروں کہیں رکتی نہیں
اس سفر میں کوئی تو اپنا ٹھکانہ چاہئے
جس کو سب معلوم ہے میری خبر رکھتا ہے جو
اس کو اب میرے سوا سارا زمانہ چاہئے
دل کی ہر دیوار پر اک نقش ہے ابھرا ہوا
چاہتی ہوں میں اسے اب تو مٹانا چاہئے
ایک مدت ہو گئی ہے در بدر پھرتے ہوئے
نیلما اب لوٹ کر گھر بھی تو جانا چاہئے

غزل نمبر.9. ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نیلما ناہید درانی

آنکھ کے ساتھ ملا دل کا کھلونا کیسا
دل جو ٹوٹا تو پڑا آنکھ کو رونا کیسا
رات کے ساتھ خیالوں کی بھی رم جھم آئی
شعر کے ساتھ پڑا جاں کو بھگونا کیسا
جب سمندر کی طرف رخت سفر باندھا ہے
پھر کناروں کی طرف دیکھ کے رونا کیسا
پھر سے مہمان ہوئی دل میں کسی کی چاہت
جسم و جاں کو بھی پڑا خوں میں ڈبونا کیسا
جس سے ملنے کے لیے ساری عمر جاگے تھے
وقت آخر اسے ملنا اسے کھونا کیسا
وہ جو ہر در پہ گداگر کی طرح پھرتا ہے
ایسے انسان کو اب دل میں سمونا کیسا
ہے غریبی تو بری چیز مگر اس کے سوا
حرص کر دیتی ہے انسان کو بونا کیسا

غزل نمبر.10. ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نیلما ناہید درانی

مرے ہی گھر میں کوئی جانتا نہ تھا مجھ کو
میں کیا تھی کون تھی پہچانتا نہ تھا مجھ کو
عجب غلاف تھا اطراف میں جو پنہاں تھا
عجیب دل تھا مرا مانتا نہ تھا مجھ کو
وہ کیسی تشنہ لبی تھی وہ کیسا دریا تھا
ازل سے جو تھا مرا جانتا نہ تھا مجھ کو
ہاں ایک اور مسافت کا سامنا تھا مجھے
جو راہبر تھا وہ پہچانتا نہ تھا مجھ کو
مجھے بھی نیلما اپنا حصار پیارا تھا
اسی لیے تو کوئی جانتا نہ تھا مجھ کو

غزل نمبر.11. ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نیلما ناہید درانی

اداس لوگوں سے پیار کرنا کوئی تو سیکھے
سفید لمحوں میں رنگ بھرنا کوئی تو سیکھے
کوئی تو آئے خزاں میں پتے اگانے والا
گلوں کی خشبو کو قید کرنا کوئی تو سیکھے
کوئی دکھائے محبتوں کے سراب مجھ کو
مری نگاہوں سے بات کرنا کوئی تو سیکھے
کوئی تو آئے نئی رتوں کا پیام لے کر
اندھیری راتوں میں چاند بننا کوئی تو سیکھے
کوئی پیمبر کوئی امام زماں ہی آئے
اسیری ذہنوں میں سوچ بھرنا کوئی تو سیکھے

جشن بہاراں ………… نیلما ناھید درانی

جشن بہار میں رستوں پر
جو پھول سجاتے رہتے ہیں
نہر کنارے روشن کرتے
رنگ بچھاتے رہتے ہیں
کاش کوئی ان کو بتلائے
بھوک، بیماری ،غربت ہو تو
بچے مرجھا جاتے ہیں
پھولوں کی خوشبو سے اچھی
روٹی کی خوشبو ہوتی ہے
پھولوں والے تھال یہ لے لو
روٹی والی تھالی دے دو

ادیبہ ، شاعرہ ، اقلیم ِ فن کی ہیں مہارانی
دُر ِ نایاب ہیں یہ نیلما ناہید درانی

close