لاہور( این این آئی) لاہور ہائیکورٹ نے زیر زمین پانی کے تحفظ، ماحولیاتی آلودگی اور سموگ کے تدارک کیلئے دائر درخواست پر سماعت کرتے ہوئے پولی تھین بیگز استعمال کرنے والوں کو جرمانے کرنے اور دکانیں سیل کرنے کا حکم دیدیا۔لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شاہد کریم نے ہارون فاروق کی درخواست پر
سماعت کی۔ اس موقع پر ڈائریکٹر پی ڈی ایم سہیل بابر، ڈسٹرکٹ آفیسر محکمہ ماحولیات لاہور علی اعجاز سمیت دیگر عدالت میں پیش ہوئے جبکہ واٹر اور ماحولیاتی کمیشن کی جانب سے سید کمال حیدر ایڈوکیٹ نے رپورٹ پیش کی۔ واٹر کمیشن کی جانب سے عدالت کو آگاہ کیا گیا کہ 2 ہزار 341 بھٹوں کو زگ زیگ ٹیکنالوجی پر منتقل کیا گیا، 1ہزار 373 دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کو بند کیا گیا، دھواں دینے والی دس ہزار سات سو انتالیس گاڑیوں کے چالان کیے گئے۔پنجاب حکومت کے وکیل نے بھی فاضل عدالت کو ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے کے حوالے سے کیے جانے والے اقدامات بارے آگاہ کیا۔ جسٹس شاہد کریم نے ماحولیاتی آلودگی کے حوالے سے کیے جانے والے اقدامات کو سراہتے ہوئے پولی تھین بیگز استعمال کرنے والوں کی دکانیں سیل کرنے اور 5 سے 20 ہزار تک جرمانہ کرنے کے احکامات جاری کردیئے۔ فاضل عدالت نے نیا پاکستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی اور ریورراوی ڈویلپمنٹ اتھارٹی کو نوٹس جاری کرتے ہوئے پانی کے تحفظ بارے رپورٹ بھی طلب کرلی۔۔۔۔
جعلی بنک اکائونٹس، سپریم کورٹ نے چیئرمین نیب کو طلب کرنے کا عندیہ دیدیا
اسلام آباد (این این آئی)سپریم کورٹ نے جعلی بنک اکاونٹس کیس کے ملزمان ڈاکٹر ڈنشا اور جمیل بلوچ کی ضمانت کیس میں آئندہ سماعت پر چیئرمین نیب کو طلب کرنے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ نیب قانون کے مطابق اور شفافیت کیساتھ دیگر ملزمان کیخلاف کارروائی کرے،تمام ملزمان کیساتھ یکساں سلوک کیا جائے،احتساب کیلئے تحقیقات کرنا نیب کے اختیار میں ہے،شہریوں کی آزادی اور بنیادی حقوق کا تحفظ سپریم کورٹ کی ذمہ داری ہے۔ جمعرات کو جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے سماعت کی۔دور ان سماعت عدالت عظمیٰ نے کہاکہ اگر نیب پیش رفت دکھانے میں ناکام رہا تو آئندہ سماعت پر چیئرمین نیب ذاتی حیثیت میں پیش ہوں۔ عدالت نے کہاکہ احتساب کیلئے تحقیقات کرنا نیب کے اختیار میں ہے،شہریوں کی آزادی اور بنیادی حقوق کا تحفظ سپریم کورٹ کی ذمہ داری ہے۔ عدالت نے کہاکہ 29 ملزمان میں سے 2 کے علاوہ دیگر کیخلاف کاروائی نہ کرنے کی وجوہات نہیں بتائی گئیں۔ عدالت عظمیٰ نے کہاکہ پراسیکوٹر جنرل نیب لندن میں بیٹھ پر پلی بارگین کرنے والے کی قانونی حیثیت بتانے سے قاصر رہے۔ جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہاکہ ہم اس کیس میں نیب کی کارکردگی سے مطمئن نہیں،20 ماہ سے ایک بندہ جیل میں ہے جبکہ مرکزی کرداروں کیخلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ پراسیکیوٹر جنرل نیب نے کہاکہ جن لوگوں نے تعاون
نہیں کیا یا پلی بارگین کی درخواست نہیں انکو گرفتار کیا۔ جسٹس سجاد علی شاہ نے کہاکہ نیب کا یہ رویہ جانبداری ظاہر کرتا ہے،نیب کا طریقہ کار اس کا ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے۔ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے کہا کہ ڈاکٹر ڈنشا جیسے عمر رسیدہ شخص کو پکڑ لیا باقی 27 لوگ آزاد ہیں،سب جانتے ہیں کہ 62 اور 42 منزلہ دو عمارتیں کس کی ہیں۔ جسٹس مظاہر علی اکبر نقو ی نے کہاکہ انہی وجوہات کیوجہ سے نیب پر صبح سے شام تک باتیں ہوتی ہیں۔ نجی ٹی وی کے مطابق جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہاکہ نیب کیوجہ سے لوگ پاکستان میں سرمایہ کاری نہیں کریں گے۔ انہوںنے کہاکہ برطانیہ میں بیٹھ کر ایک شخص نے پلی بارگین کی درخواست دی اور نیب نے قبول کر لی۔ انہکںنے کہاکہ نیب سے بہتر کون جانتا ہے کہ برطانیہ سے کسی شخص کو انٹرپول کے ذریعے بلانا کتنا مشکل کام ہے،جاپان میں احتساب اور قانون کی بالادستی ہمارے لیے ایک مثال ہے۔ جسٹس سجاد علی شاہ نے کہاکہ ایک بڑے آدمی کو موٹر وے پر گرفتار کر لیا جاتا ہے جیسے وہ کہیں بھاگ جائے گا۔ پراسیکیوٹر جنرل نیب نے کہاکہ اس شخص کو نیب نے نہیں پکڑا تھا۔ جسٹس سجاد علی شاہ نے کہاکہ بحریہ آئیکون ٹاور کا سب کو پتا ہے کس کا ہے۔ جسٹس سجاد علی شاہ نے نیب پراسیکیوٹر سے کہاکہ چیئرمین نیب اور آپکے علاوہ کوئی نیب کی تعریف نہیں کرتا۔عدالت عظمیٰ نے نیب سے تمام ملزمان
کیساتھ یکساں سلوک کرنے کے حوالے سے اقدامات کی تفصیل طلب کرتے ہوئے ملزمان کی گرفتاری کے حوالے سے پالیسی دو ہفتے میں پیش کرنے کا حکم دیا ۔ جسٹس سجاد علی شاہ نے کہاکہ سندھ میں پیسہ جن دو افراد کو جاتا ہے وہ سب کو معلوم ہے، باغ ابن قاسم کی زمین پر بلڈنگ بنانے کیلئے سندھ میں الگ سے قانون بنا۔ جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہاکہ کوئی معمولی الزامات پر گرفتار ہوجاتا کوئی سنگین جرم کرکے بھی آزاد گھومتا ہے،سپریم کورٹ سے کئی ملزمان کی ڈھائی سال بعد ریفرنس دائر نہ ہونے پر ضمانتیں ہوئیں،عوامی عہدہ رکھنے والوں کا احتساب ہر صورت ہونا چاہیے تاہم نیب اپنے قانون کا اطلاق سب پر یکساں نہیں کر رہا۔ انہوںنے کہاکہ نیب نے ایک سال سے ملزمان کی پلی بارگین درخواستوں پر فیصلہ کیوں نہیں کیا؟ ۔ بعد ازاں کیس کی سماعت آئندہ برس 6 جنوری تک ملتوی کر دی گئی ۔۔۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں