اسلام آباد(پی این آئی )کارکے کمپنی نے پیپلز پارٹی دور میں سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کی مدد سے چھ سو ملین ڈالرز کے قریب کا کنٹریکٹ لیا اور اس میں سب کو پیسہ کھلایا گیا۔ روزنامہ دنیا میں شائع رئوف کلاسرا اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔جو کام سو ملین ڈالرز کا تھا اس کا بل چھ سو ملین ڈالرز کا بنایا گیا۔ جب ان کی کرپشن پکڑی اور کنٹریکٹ ختم کیا گیا تو انہوں نے نیب افسران کی
مدد سے این او سی لے کر عالمی عدالت میں مقدمہ کیا اور جیت لیا۔ تب وزیر اعظم نواز شریف نے کمیٹی بنائی جس میں آئی ایس آئی افسر بھی شامل تھے۔ اس کمیٹی نے دنیا بھر سے ترکش کمپنی کی کرپشن پکڑ لی اور عالمی عدالت میں پٹیشن فائل کر دی گئی۔ عالمی عدالت کے رولز کے تحت اگر ثابت ہو جائے کہ آپ نے کنٹریکٹ کرپشن کے ذریعے لیا ہے تو تمام جرمانہ معاف اور کمپنی بلیک لسٹ ہو جاتی ہے۔ اس پر ترک دوستوں نے فوراً عمران خان صاحب سے مدد مانگی‘ حالانکہ یہ کمپنی قبل ازیں عالمی عدالت سے کیس جیتنے کے بعد تین ملکوں میں پاکستان کے وہاں موجود اثاثوں کو بیچ کر جرمانہ ادا کرنے کے لیے ان ملکوں کی مقامی عدالتوں میں پٹیشن فائل کر چکی تھی۔ یوں ترکوں کو خوش کرنے کے لیے سارا الزام ہم نے خود پر لے لیا کہ ہم ہی برے تھے حالانکہ کرپشن ترک کمپنی نے کی تھی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ترک حکام سے احتجاج کرتے کہ ہمارے ترک بھائیوں نے ہمیں اتنا بڑا چونا لگایا‘ الٹا ہم پر سو ارب ڈالر کا مقدمہ بھی کر دیا اور جیت بھی لیا۔ اب جب وہ کمپنی کرپشن کرتے پکڑی گئی اور ثبوت ہاتھ لگ گئے تو ہم نے خود پر ملبہ ڈال لیا۔ بھائی‘ اگر ترک کمپنی صاف تھی تو آپ نے اس معاملے کی تحقیق کرنے والے اپنے تین افسران کو ایک ایک کروڑ روپے کا انعام کیوں دیا؟ اب فرماتے ہیں‘ اس تفتیش سے ہمیں ایج ملا اور ہم نے پیسے معاف کرا لیے۔ تو پھر طیب اردوان صاحب کاشکریہ کس چکر میں اگر ہمارے افسران کی
وجہ سے ایج ملا؟ اس وقت ترک صدر نے ہماری مدد کیوں نہ کی جب عالمی عدالت میں ہم ذلیل ہو رہے تھے یا ترک کمپنی دنیا کے تین ملکوں میں سو ارب ڈالر ہرجانہ نکلوانے کے لیے وہاں لوکل عدالتوں میں پاکستان کے اثاثوں کو بیچنے کے لیے مقدمے فائل کر رہی تھی؟ یہ ہے وہ احساس کمتری جو ہمیں لے ڈوبا ہے۔ کرپشن بھی ترک کمپنی نے کی‘ لوٹ مار بھی کی،ہمیں عالمی عدالت میں
ذلیل بھی کیا‘ تگڑا مال بھی بنایا اور آخر میں ہم سے کریکٹر سرٹیفکیٹ بھی لے لیا۔ یہ کام انہوں نے کیا جو فرماتے تھے‘ میں پاکستان کی عزت بحال کرائوں گا۔ عزت بحال کرانے کا پہلا موقع آیا تو سب ٹھس ہو گئے۔ دوسرا ایشو اس سے بھی زیادہ تشویشناک ہے۔ ہم سمجھے بیٹھے تھے‘ وزیر اعظم جی آئی ڈی سی کیس کے تاریخی فیصلے سے بہت خوش ہوں گے‘
لیکن اب ارشد شریف کےپروگرام سے یہ پتہ چلا ہے کہ یہاں تو باقاعدہ سوگ کا عالم ہے کہ یہ کیس ہم کیوں جیتے۔ وزیر اعظم کا ارشد کو کہنا تھا: ہم تو افسردہ بیٹھے ہیں کہ یہ کیس جیتنے میں فائدہ تھا یا ہارنے میں۔ ان مطلب تھا‘ ہار جاتے تو ہمارے لیے بہتر ہوتا۔ فرمایا: بتایا گیا ہے وہ پیسے نہیں ملیں گے جو اس کیس سے پہلے مل رہے تھے۔وزیر اعظم کی باتوں سے صاف لگ رہا تھا کہ
انہوں نے عدالت کا فیصلہ نہیں پڑھا‘نہ ہی انہیں اس کیس کے حقائق کا پورا علم ہے۔ اس کیس کے جیتنے پر افسردگی دیکھ کر میں خود افسردہ ہو گیا کہ واقعی وہ اتنے سادہ ہیں کہ جو کچھ ندیم بابر نے بتا دیا وہ مان لیا؟ پتہ چلا‘ ندیم بابر نے انہیں بریفنگ دی کہ مشکل سے آپ کو نوے ارب روپے ملیں گے‘ آپ چار سو سترہ ارب روپے بھول جائیں‘ اور موصوف نے اس معاملے میں کئی کہانیاں بھی
سنائی ہیں۔ میں نے پوچھا: نہ آپ نے وہ فیصلہ پڑھا ہےاور نہ ہی آپ کے وزیر اعظم نے۔ ان کا بڑا پن اور مہربانی کہ انہوں نے اعتراف کیا کہ واقعی میں نے وہ فیصلہ نہیں پڑھا۔ ان کا کہنا تھا: یہ بریفنگ ندیم بابر کی ہے۔میں نے کہا: ندیم بابر تو اس جی آئی ڈی سی سکینڈل کے سب سے بڑے فائدہ اٹھانے والوں میں سے تھے۔ وہ فیصلہ تو ان کے خلاف ہے اور انہی سے بریفنگ لی گئی ہے
اور انہوں نے وزیراعظم کو قائل کر لیا کہ بہتر ہوتا ہم یہ مقدمہ ہار جاتے‘اور یہی بات عمران خان صاحب نے لفظوں کو آگے پیچھے کرکے ارشد شریف کے شو میں دہرا دی اور اس کیس کے جیتنے پر افسردہ نظر آئے۔ جس کو اس کیس میں پوری کابینہ کو مس لیڈ کرنے پر برطرف ہونا چاہیے وہ الٹا وزیراعظم کو قائل کیے بیٹھا ہے کہ بہتر تھا ہم یہ کیس ہار جاتے۔ دنیا بھر میں حکومتیں مقدمے
جیتنے پر فتح کا جشن مناتی ہیں‘ یہاں سوگ منایا جارہا ہے۔ دراصل یہ لمبا کھیل تھاجس میں اربوں روپے کے فوائد بڑے بڑے مگرمچھوں نے اٹھانے تھے۔ جس ملک کا وزیراعظم چار سو سترہ ارب روپے کا کیس جیتنے پر سوگ منائے تو اندازہ لگا لیں اس ملک کی قسمت میں کیا لکھا ہے۔ جناب وزیراعظم کو افسردہ دیکھ کر میں نے تو 417 ارب روپے پر فاتحہ پڑھ لی ہے آپ بھی پڑھ لیں کیونکہ ندیم بابر نے وزیراعظم کو سمجھا دیا ہے بہتر ہوتا‘ ہم یہ کیس ہار جاتے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں