علی ظفر کا سول ایوارڈ واپس لینے کا مطالبہ سامنے آ گیا، مطالبہ کس کی طرف سے کیا گیا؟ کیا دلائل دیئے جا رہے ہیں؟

کراچی(پی این آئی)علی ظفر کا سول ایوارڈ واپس لینے کا مطالبہ سامنے آ گیا، مطالبہ کس کی طرف سے کیا گیا؟ کیا دلائل دیئے جا رہے ہیں؟خواتین کے حقوق سے متعلق آواز اُٹھانے والی مختلف تنظیموں نے گلوکار علی ظفر کو سول ایوارڈ دینے پر اعتراض اُٹھایا ہے اور اس فیصلے پر نظر ثانی کرتے ہوئے اسے واپس لینے

کا مطالبہ کیا ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق صدر مملکت نے رواں برس 14 اگست کو یوم آزادی کے موقع پر 184 ملکی اور غیر ملکی شخصیات کے لیے سول ایوارڈز کا اعلان کیا تھا جنہیں 23 مارچ کو یوم پاکستان کے موقع پر منعقد کی جانے والے تقریب میں ایوارڈز سے نوازا جائے گا۔صدر پاکستان نے اس سال جن شخصیات کو سول ایوارڈ کے لیے نامزد کیا ہے اُن میں گلوکار علی ظفر بھی شامل ہیں۔ علی ظفر نے حکومت پاکستان کی جانب سے صدارتی تمغہ حسن کارکردگی کے لیے نامزدگی پر خوشی کا اظہار بھی کیا تھا اور نامزدگی کو بہت بڑا اعزاز قرار دیا تھا۔کچھ روز قبل اداکارہ عفت عمر نے سول ایوارڈز کی نامزدگی سے متعلق ایک تنقیدی ٹوئٹ کی تھی لیکن کسی کا نام نہیں لیا تھا۔ عفت عمر نے لکھا تھا کہ صرف پاکستان میں یہ ممکن ہے کہ حکومت کی طرف سے مبینہ طور پر ہراسانی میں ملوث شخص کو ایوارڈ دیا جائے۔انہوں نے اپنے ٹوئٹ میں یہ واضح نہیں کیا تھا کہ وہ کس شخص کے حوالے سے بات کررہی ہیں تاہم لوگوں نے اندازہ لگاتے ہوئے کہا کہ عفت عمر گلوکار علی ظفر کے بارے میں بات کررہی ہیں۔ جس کے بعد اب عورت مارچ، عورت آزادی مارچ، ویمن ایکشن فورم اور تحریک نسواں کی جانب سے صدر مملکت عارف علوی اور وزیراعظم عمران خان کو لکھے گئے خط میں علی ظفر کو سول ایوارڈ دینے سے متعلق فیصلے پر نظر ثانی کرنے کو کہا گیا ہے۔اس حوالے سے لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ ہم پاکستانی معاشرے کو مزید مساوی بنانے کے لیے کام کررہے ہیں کہ جنسی ہراسانی کا سامنا کرنے والی خواتین کو انصاف فراہم کیا جائے اور کام کی جگہ پر تشدد کا خاتمہ اولین ترجیح ہونا چاہیے۔خط میں کہا گیا کہ ہمارا ماننا ہے کہ موجودہ حکومت تمام سیاسی اداروں اور مشینری میں برابری اور انصاف کو شامل کرنے کے مینڈیٹ پر کام کررہی ہے اور پاکستانی خواتین، ٹرانس ویمن اور دیگر پسماندہ طبقات کے تحفظ ان کا خصوصی فرض ہے۔صدارتی دفتر کی جانب سے علی ظفر کو تمغہ حسن کارکردگی دینے کے فیصلے پر ہمیں شدید تشویش ہے کیونکہ علی ظفر پر جنسی ہراسانی کے الزامات عائد ہیں اور اس حوالے سے مقدمات تاحال جاری ہیں۔ خط میں کہا گیاہے کہ ہم اس تمغے کی میراث کو داغدار ہوتا نہیں دیکھنا چاہتے۔قصوروار ثابت ہونے تک ہر شخص بے گناہ ہوتا ہے تاہم علی ظفر کے خلاف سپریم کورٹ میں ہراسانی سے متعلق ایک اپیل زیر التوا ہے اور ہتک عزت کا ایک مقدمہ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ کورٹ لاہور میں زیر التوا ہے جبکہ اس دوران یہ اعزاز دیے جانے کا وقت انتہائی پریشان کن اور بے حسی ہے۔خط میں کہا گیا کہ یہ فیصلہ پریشان کن اس لیے ہے کیونکہ اس سے تاثر جاتا ہے کہ ریاست پاکستان نادانستہ طور پر زیر التوا فیصلوں سے قطع نظر جنسی ہراسانی کے الزامات کا سامنا کرنے والے شخص کے ساتھ کھڑی ہے یہ بے حس اس لیے ہے کہ متعدد خواتین کی گواہیوں کے مخالف ہے اور ایک ایسی ثقافت کو فروغ دیتا ہے جہاں جنسی مس کنڈکٹ کو سنجیدہ نہیں لیاجاتا۔خط میں رواں برس کے انتخاب پر نظرثانی پر زور دیا گیا اور مطالبہ کیا گیا ہے کہ اسے اس وقت تک کے لیے ملتوی کردیا جائے جب تک نامزد کردہ شخص کے خلاف الزام سے متعلق تمام قانونی معاملات مکمل نہیں ہوجاتے۔ وزیراعظم سے ملازمت کی جگہوں کو ہراسانی سے پاک بنانے پر غور کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا، اس میں درخواست کی گئی کہ ان معاملات پر فوری طور پر نظر ثانی کی جائے کیونکہ حکومت پاکستان کے دفاتر کو امتیازی نظاموں، علامات، معیار سے وابستہ نہیں ہونا چاہیے۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں