لندن(پی این آئی)ناروے اور برطانوی سائنسدان نے دعویٰ کیا ہے کہ کورونا وائرس قدرتی نہیں بلکہ لیبارٹری میں بنایا گیا ہے۔گزشتہ سال دسمبر میں چین کے شہر ووہان سے دنیا میں پھیلنے والے مہلک کورونا وائرس سے 4 لاکھ افراد ہلاک ہوچکے ہیں جب کہ 71 لاکھ سے زائد متاثر ہوئے ہیں۔مہلک وائرس سے نہ صرف دنیا
بھر میں معاشی، سیاسی، سماجی اور کھیلوں کی سرگرمیاں رک گئی ہیں بلکہ سیاحت سمیت کئی انڈسٹریز کو اربوں ڈالرز کا نقصان ہوا ہے۔امریکا اور دیگر ممالک کی جانب سے چین پر الزام لگایا گیا ہے کہ مہلک وائرس چین کی لیبارٹری میں تیار کیا گیا ہے تاہم چین نے ہمیشہ ہی الزام کی تردید کی ہے۔اب ناروے اور برطانیہ کے سائنسدانوں نے دعویٰ کیا ہے کہ کورونا وائرس قدرتی نہیں ہے بلکہ اسے لیبارٹری میں تیار کیا گیا ہے۔ناروے کے برجر سورینسن اور برطانوی پرفیسر اینگس ڈلگلیش نے یہ دعویٰ برطانوی انٹیلی جنس ادارے ایم آئی 6 کے سابق سربراہ سر رچرڈ ڈیئرلو کی معاونت سے ہونی والی ایک تحقیق میں کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ کورونا وائرس کی جھلی ایسے تیز نوک دار پروٹین سے بنی ہے جو مصنوعی طور پر داخل کیے گئے ہیں جب کہ تحقیق میں اس بات کو بھی واضح کیا گیا ہے کہ انسانی جسم میں دریافت ہونے کے بعد سے کورونا میں بہت کم تبدیلی دیکھی گئی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ پہلے ہی انسانوں کے لیے ڈھالا گیا ہے۔سورینسن کے مطابق کورونا کی خصوصیات سارس سے بہت زیادہ مختلف ہیں جنہیں پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا۔انہوں نے وضاحت کی کہ چین ا ور امریکا نے کورونا وائرس پر کئی عرصے تک مشترکہ تحقیق کی ہے جس میں وائرس کے بڑھنے، پھیلنے اور منتقلی کی صلاحیت سے متعلق مطالعہ کیا گیا۔برطانوی خفیہ ایجنسی کے سربراہ سر ڈیئرلو کا کہنا تھا کہ تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ دنیا کو مفلوج کرنے والا وائرس لیب میں بنایا گیا ہے، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تجربے کے دوران یہ وائرس ناقص انتظامات کے باعث نکل گیا ہو۔ان کا مزید کہنا تھا کہ متعدد اداروں نے یہ تحقیق چین کی ناراضی کے خدشے کے پیش نظر شائع کرنے سے معذرت کی ہے۔واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دنیا بھر میں پھیلی وبا کا الزام چین پر عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا تعلق ووہان کی لیبارٹری سے ہے۔دوسری جانب امریکی انٹیلی جنس کمیونٹی اور سائنسدان کہتے ہیں کہ کورونا وائرس جانور سے انسان میں منتقل ہوا اور اس کا تعلق چین کے شہر ووہان کی لیب سے نہیں ہے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں