آئندہ 50 سال تک افریقہ، ایشیا، جنوبی امریکہ اور آسٹریلیا کے وسیع علاقے انسانی رہائش کے قابل نہیں رہیں گے، ماہرین ماحولیات کی وارننگ

واشنگٹن (پی این آئی) اوسط درجہ حرارت میں اضافے کی موجودہ شرح کے ساتھ آئندہ 50 سال تک افریقہ، ایشیا، جنوبی امریکہ اور آسٹریلیا کے وسیع علاقے انسانی رہائش کے قابل نہیں رہیں گے جس سے ان علاقوں میں رہنے والے ایک ارب سے ساڑھے تین ارب انسانوں کی زندگیاں شدید متاثر ہو سکتی ہیں۔ یہ بات برطانیہ،

نیدرلینڈ اور چین سے تعلق رکھنے والے ماہرین ماحولیات کی تیار کردہ ایک رپورٹ میں بتائی گئی ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ماحول کو نقصان پہنچانے والے گیسوں کے اخراج میں کمی اور دیگر ضروری اقدامات نہ کرنے کی صورت میں سالانہ 1.8 درجے فارن ہائیٹ کی شرح سے اضافے سے مذکورہ علاقوں کا درجہ حرارت اس قدر زیادہ ہو جائے گا کہ صرف وہی لوگ ان علاقوں میں رہائش رکھ سکیں گے جو اپنے گھروں کو ایئرکنڈیشنڈ کر لیں گے تاہم ان علاقوں میں مقیم لوگوں کی ایک بڑی تعداد کے لئے یہ ممکن نظر نہیں آتا۔امریکہ کی نیشنل اکیڈمی آف سائنسز کے جریدے پروسیڈنگز میں شائع ہونے والی اس رپورٹ کے مطابق زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ اوسط درجہ حرارت میں اضافہ جاری رہے گا اور 2070 ء میں ساڑے تین ارب افراد جو اس وقت کی متوقع آبادی کا ایک تہائی ہوں گے کے لئے افریقہ، ایشیا، جنوبی امریکہ اور آسٹریلیا کے وسیع علاقوں میں رہائش تقریباً ناممکن ہو جائے گی۔تاہم اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ دنیا بھر کے ممالک کی طرف سے ماحولیاتی تبدیلوں کو روکنے کے موثر اقدامات کئے جائیں گے پھر بھی مذکورہ علاقوں میں تقریباً ایک ارب لوگوں کی رہائش ناممکن ہو جائے گی۔ماہرین ماحولیات کے مطابق انسانی رہائش کے لئے موزوں ترین مقامات وہ ہیں جن کا اوسط سالانہ درجہ حرارت 11 سی15 ڈگری سینٹی گریڈ ہے۔ اگر چہ یہ بات درست ہے کہ دنیا میں اس سے کم اور زیادہ اوسط سالانہ درجہ حرارت والے علاقوں میں بھی رہائش پذیر ہیں تاہم ان کو متعدد مشکلات کا سامنا ہے۔رپورٹ کے مطابق اس وقت 2کروڑ انسان ایسے علاقوں میں رہائش پذیر ہیں جن کا اوسط سالانہ درجہ حرارت 29 ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ ہے اور ان علاقوں میں سعودی عرب کا شہر مکہ اور صحرائے صحارہ شامل ہیں لیکن یہ زمین کی خشکی کا صرف ایک فیصد ہیں۔ تحقیقی رپورٹ مرتب کرنے والوں میں چین کی نانجنگ یونیورسٹی کے چی شو، برطانیہ کی یونیورسٹی آف ایکسیٹر کے گلوبل سسٹمز انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر اور ماحولیاتی ماہر ٹم لینٹن اور نیدر لینڈ کی ویگننگن یونیورسٹی کے مارٹن شیفر شامل ہیں۔

close