سرکاری ہسپتال میں اجتماعی زیادتی کی شکار تین بچوں کی ماں نے خودکشی کر لی

لاہور(پی این آئی)اردو خبروں کی معروف سعودی ویب سائٹ اردو نیوز کے مطابق ماہ نور(فرضی نام) کی بڑی بہن شہباز شریف مدر اینڈ چلڈرن ہسپتال شیخوپورہ میں اپنی بیٹی کے ساتھ تھیں۔

ان کی بیٹی گذشتہ کئی دنوں سے بیمار تھیں جس کے باعث وہ اس کی تیمارداری کے لیے ہمہ وقت اس کے ساتھ موجود رہتیں لیکن آٹھ مارچ 2024 کی رات انہوں نے اپنی بہن ماہ نور کو فون کر کے کہا کہ وہ ہسپتال آجائے کیونکہ وہ اکیلی تھیں۔ ماہ نور خود بھی شادی شدہ اور تین بچوں کی ماہ تھیں لیکن وہ اپنی بڑی بہن کو یوں اکیلا چھوڑنا نہیں چاہتی تھی۔ ماہ نور ہسپتال پہنچی تو ان کا سامنا کاظم نامی سکیورٹی گارڈ سے ہوا۔ وہ ہسپتال میں اپنی بہن کی تلاش میں تھیں جبکہ گارڈ ماہ نور کو گمراہ کر کے اپنے ساتھ لے جانا چاہتا تھا۔ گارڈ نے ماہ نور سے ہسپتال آنے کی وجہ پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ ان کی بہن یہاں اپنی بیٹی کی تیمارداری کے لیے اس کے ساتھ ہیں اور وہ ان سے ملنے کے لیے آئی ہیں۔ ماہ نور کے بھائی فضل عظیم (فرضی نام) نے بتایا کہ ’گارڈ نے ماہ نور کو گمراہ کیا اور کہا کہ ان کی بھانجی ہسپتال سے ڈسچارج ہو گئی ہیں۔‘

فضل عظیم کے بقول ’میری بہن نے کہا کہ میری بھانجی شدید بیمار ہے اور میری بہن بھی اس کے ساتھ ہیں۔ وہ ابھی ڈسچارج نہیں ہوئیں جس پر گارڈ نے ان سے کہا کہ وہ اب اسے سینیئر ڈاکٹر سے ملائے گا جو انہیں فائل دے کر بچی کو ڈسچارج کر دے گا۔‘ ان کے بقول ’میری بہن اس کے ساتھ چلی گئیں تو وہ اسے ایک کمرے میں لے گیا جہاں کوئی نہیں تھا۔ میری بہن نے بار بار کہا کہ ہماری بچی اگر ڈسچارج ہو گئی ہے تو فائل دے دو لیکن گارڈ نے دست درازی کی کوشش کی۔‘ ماہ نور کے بھائی کے مطابق جب گارڈ نے ماہ نور کے ساتھ دست درازی کی تو ماہ نور ڈر گئی لیکن گارڈ اس کو بازو سے پکڑ کر ہسپتال کے عقبی حصے میں ایک ٹنکی کے پاس لے گیا۔

’ہسپتال کے عقبی حصے میں ایک پرانی ٹنکی ہے جہاں جھاڑیاں ہے۔ اس نے اپنے دو دیگر ساتھیوں کو بھی فون کیا اور انہیں کہا کہ وہ راستے میں کھڑے ہوجائیں تاکہ اگر کوئی آئے تو وہ اسے مطلع کر دیں۔‘ ’گارڈ نے ماہ نور کو زیادتی کا نشانہ بنایا۔ اسی اثنا میں ماہ نور کے بہنوئی موٹر سائیکل پر ہسپتال پہنچ گئے۔ ماہ نور نے کہا کہ اس کے بھائی آگئے ہیں۔ اس لیے اب تمہاری خیر نہیں۔‘ ماہ نور کے بہنوئی نے ہسپتال میں جب یہ دیکھا کہ ماہ نور تو آئی ہی نہیں تو وہ فکر مند ہوگئے اور انہوں نے پورے ہسپتال میں ماہ نور کی تلاش شروع کر دی لیکن کچھ معلوم نہ ہوسکا۔ اسی اثنا میں تینوں گارڈز موقعے سے فرار ہوگئے جبکہ ماہ نور نیم بے ہوشی کے عالم میں جھاڑیوں میں پڑی رہی۔ ماہ نور نے اٹھنے کے لاکھ جتن کیے لیکن وہ اٹھ نہ پائیں۔ وہ اٹھیں تو ان کے بہنوئی نے انہیں دیکھ لیا۔ ماہ نور کے کپڑے پھٹے ہوئے تھے اور ان کے منہ سے خون بہہ رہا تھا۔ فضل عظیم کے مطابق ’یہ تقریباً 11 بجے کا وقت تھا جب یہ واقعہ پیش آیا۔ رات کے تین بجے ہمارے بہنوئی ماہ نور کو گھر لائے تو وہ رو رہی تھیں۔ میری ماں نے وجہ پوچھی تو اس نے اس وقوعہ کے بارے میں تفصیل سے آگاہ کیا۔‘ اس دوران ہسپتال کے عملے سمیت ایم ایس اور سکیورٹی سپروائزر کو معاملے کا علم ہوگیا لیکن تینوں گارڈز فرار ہو چکے تھے۔ فضل کریم کے مطابق ماہ نور بار بار گھر والوں کو کہہ رہی تھیں کہ وہ مزید زندہ نہیں رہنا چاہتی۔

اس کی والدہ نے اسی وقت مقامی پولیس تھانے میں مقدمہ درج کروا دیا تھا اور پولیس نے کارروائی بھی شروع کر دی تھی۔ فضل عظیم کے مطابق ’میری بہن بار بار کہہ رہی تھیں کہ میں مرنا چاہتی ہوں لیکن میری ماں نے سمجھایا کہ مقدمہ درج ہو گیا ہے اور ملزم پکڑے جائیں گے۔ لیکن وہ مسلسل روتی رہی۔ وہ رات کو اپنے کمرے میں گئیں اور زہریلی گولیاں کھا کر خودکشی کر لی۔‘ فضل عظیم کے مطابق ان کی بہن سے یہ صدمہ برداشت نہیں ہو رہا تھا اور وہ رو رو کر خود سے باتیں کر رہی تھیں۔

پولیس نے واقعے کے اگلے روز ہی مرکزی ملزم کاظم کو حراست میں لے لیا۔ اس کیس کے تفتیشی افسر اعجاز گل نے بتایا کہ ’ملزم اس وقت چار روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر ہے جب کہ اس کے ساتھیوں کی گرفتاری کے لیے کارروائی کی جا رہی ہے۔‘ ان کے بقول ملزم نے اعتراف جرم کر لیا ہے۔ خاتون نے مجسٹریٹ کے سامنے اپنا بیان ریکارڈ کروانے کے علاوہ ماہ نور کا میڈیکل بھی کروایا تھا۔ فضل عظیم یہ امید رکھتے ہیں کہ ملزم قانون کی گرفت سے بچ نہیں سکیں گے اور وہ ان کو سزا دلوانے کے لیے پرعزم ہیں۔

close