سیلفی، وائی فائی اور ہمارا مستقبل عتیق الرحمن شیخ کی شوخ تحریر

سیلفی انگلش ڈکشنری کا سب سے نیا، اچھوتا، اور سب سے زیادہ استعمال ہونے والا لفظ ہے- وائی فائی دوسرے نمبر پر ہے-
ایک وقت تھا لوگ لمحوں میں جیتے اور اس کا لطف اٹھاتے تھے- وہ لطف اب سیلفی کی نظر ہو چکا- تجربے میں آیا ہے کہ حرم اور مسجد نبوی میں بھی زائرین ویڈیو اور سیلفیاں بناتے نظر آتے ہیں – خیر یہ ان کا مسئلہ ہے، ہمارا اس سے کیا لینا دینا –

ایک فلاسفر کا قول ھے کہ آپ وھی ہیں جو آپ کے موبائل کے اندر ہے- موبائل چلتے پھرتے بندے کی جنم کنڈلی ہے- کسی زمانے میں کہا جاتا تھا کہ کیا پتا انسان کی نیت کیا ہے- لیکن اب ایسا نہیں ہے- اگر بندے کا موبائل مل جائے تو نیت اور بندہ دونوں کا پتا چل جاتا ہے- کچھ ہی عرصہ پہلے نجومی فال نکالا کرتے تھے – پھر بلیک بیری نے بہت سے محبت بھرے پوشیدہ افسانے آشکار کئے-ویڈیو لیکس کے بھی کئی سیزن چل چکے ہیں-
مغرب میں موبائل کا سب سے زیادہ فائدہ وکلاء کو ہو رھا ہے- کیونکہ مردوں کے ہزاروں لاکھوں کیس روزانہ بیویاں پکڑ کر طلاق کے کیس دائر کر رھی ہیں- عورتیں اب شوھروں کی بجائے ان کے موبائل کو شک کی نگاہ سے دیکھتی ہیں -موبائل اور انٹر نیٹ نے تو ٹی وی انڈسٹری تقریبا بند کر دی ھے- اب عوام ٹی وی تب دیکھتی ہے جب موبائل کے سگنل کا مسئلہ درپیش ہو- اب موبائل پر ٹویٹر ،ٹک ٹاک، انسٹا گرام کے ذریعے بہت اندر کی خبر بھی فوری منظر عام پر آ رہی ہے- اب پوشیدہ صرف سائنس کے کلیے رہ گئے ہیں کیونکہ عوام کی ان میں کوئی خاص دلچسپی نہیں –

اقوام متحدہ کہنا ہے کہ دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ موسمیاتی تبدیلیاں ہیں – لیکن دانشمندوں کا ماننا ہےموجودہ دور کا سب سے بڑا مسئلہ وائی فائی اور موبائل فون کی چارجنگ ہے- آپ کہیں کام سے جائیں، کہیں مہمان جانا ھو ، دھڑکا سا لگا رھتا ہے کہ پتا نہیں وہاں وائی فائی ھو گا کہ نہیں ، چارجنگ کے لئے وہاں ساکٹ بھی ہو گی کہ نہیں -ایئر پورٹوں پر پانی مہنگا اور چارجنگ کی سہولت مفت ہے-
اب تو پنتیس، چالیس ھزار فٹ کی بلندی پر اڑتے جہاز میں بھی وائی فائی میسر ہے گو کہ استعمال کے لئے فوری ادائیگی کرنا پڑتی ہے-
آپ کہیں بھی بیٹھے ہوں ، کتنی بھی اہم میٹنگ ہو، گاڑی چلاتے ھوئے، موٹر سائیکل پر، ھر ایک دومنٹ بعد موبائل کی سکرین نہ دیکھیں تو گھبراھٹ سی محسوس ہونے لگتی ہے اور سکرین دیکھ لیں تو مایوسی-
کھانے کی میز پر پلیٹوں کے ساتھ موبائل اب نیپکن اور کٹلری کا حصہ سمجھ جاتاھے- کانٹا چھری کے ساتھ ، دائیں طرف موبائل نہ رکھا ہو کھانا بدمزہ سا لگتا ھے- ہر نوالے کے بعد سلاد اٹھانے کی بجائے موبائل پر نظر ڈالنا زیادہ صحت مند سمجھا رھا ھے- بسم اللہ نہیں پڑھتے، پہلے سالن کی تصویر بناتے ہیں-
روکھی سوکھی چل جائے گی لیکن ایزی لوڈ پر کمپرومائز نہیں-

ایک ہی کمرے اور گھر میں موجود اہل خانہ ایک دوسرے سے موبائل میسج سے بات کرتے ہیں –
موبائل ہماری زندگیوں میں شیر خوار بچوں کی سی حیثیت حاصل کر چکا ہے- جس کو ماں ایک لمحے کو بھی نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دیتی اور وقفے وقفے سے وارے نیارے جاتی ہے-
موبائل ایسی متعدی بیماری ہے جو پوری دنیا کو دھیمک کی طرح چاٹ رہی ہے- کندھے، گردن، آنکھیں ، کلائیاں ، دماغ ہر چیز تھک چکی ہے، لیکن مجال ہے جو موبائل ہاتھ سے نیچیں رکھیں- وائی-فائی اور چارجنگ کے بعد موبائل کے پاس ورڈ کی حفاظت تیسرا بڑا مسئلہ ہے- پاس ورڈ کو نیوکلیئر کوڈ کی طرح چھپایا جاتا ہے کہ مبادا کہیں ساتھ بیڈ پر لیٹے ہوئے دشمن کے ہاتھ نہ لگ جائے-
وہ دور قریب ہی ھے جب رشتہ کرنے سے پہلے لڑکی اور لڑکے دونوں کے موبائلز کا سسرال والے فرانزک کروائیں گے-
آپ کتنے بھی معزز میزبان یا مہمان کے سامنے بیٹھے ھوئے ھوں ،لیکن موبائل پر ٹک ھوتے ہی میسج کو دیکھنے کی خارش شروع ہو جاتی ہے ، قطع نظر اس کے کہ اگلا آپ سے مخاطب ہے- اور عموما وہ میسج جاز کیش کے کسی پیکج کا کوئی اشتہار ہوتا ھے-

بندہ جب ایک ایپ سے تنگ آ جاتا ہے تو دوسری ایپ کھول لیتا ہے ، پھر تیسری ایپ، پھر چوتھی، اسی دوڑ دھوپ میں رات گزر جاتی ھے- رات کو دو تین بجے تک جاگنا معمول بنتا جا رھا ہے- چند گھنٹے سو کر ، اٹھتے ہی پہلی نظر موبائل پر ڈالتے ہیں –
موبائل کا استعمال انسانی زندگی کے لئے موسمیاتی تبدیلیوں سے زیادہ خطرناک ہوتا جا رھا ھے-
لیکن موبائل کی دنیا رنگین بھی ھے- وہ رنگ تفریح کا ھے ، گپ شپ کا ہے ، اور اپنی سیلفیاں بھیجنے کا ھے – ھزاروں میل دور بیٹھے اپنے پیاروں سے بات کرنے کا ہے-سیلفی کلچر نے خود پسندی کو بہت ہوا دی ہے- خواہ مخواہ اپنی تصویریں اپ لوڈ کرنے کو دل کرتا ہے- عوامی طاقت میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے- دنیا بھر کے حکمران اب اپوزیشن سے کم اور ٹویٹر ٹرینڈ سے زیادہ ڈرتے ہیں- ای کامرس سے تجارت اور فراڈ دونوں کو فروغ ملا ہے- لیکن کہ رہے ہیں ، ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے- آرٹیفیشل انٹیلیجنس ( AI)، پانچ جی (5G) اور چھ جی ( 6G) کی دنیا کیسی ہو گی ، اس کا تصور بھی محال ہے-

close