شتر بے مہار، عتیق الرحمن شیخ کی شوخ تحریر

ایڈیٹر کے دیئے گئے ٹاسک کو پورا کرنے میں اور اپنی مرضی کی سٹوری کرنے میں بہت فرق ہے- اور یہ فرق آزادی کا ہے- لیکن میڈیا کی پولیٹیکل اکانومی کا بھی ہے- رپورٹر چاہتا ھے سب کچھ لکھ دے – میڈیا ہاؤس کے مالک نے ملازمین کو تنخواہ بھی دینی ہے اور کمپنی کو بھی چلانا ہے- ایڈیٹوریل پالیسی کی سادہ ترین الفاظ میں تعریف کی جائے تو
“صحافتی قوانین ” بننی چاھیے-

جیسے ملکی آئین، عدالتی قوانین، ٹریفک قوانین، بینک رولز- حتی کہ شوہر اور بیوی کے حقوق کا بھی دین میں تعین کیا گیا ہے- خدشہ تھا کہ دو اجنبی جب اکٹھے رہیں گے تو توقعات پوری نہ ہو پانے کی وجہ سے ان کی محبت جب ایک نئے روپ میں نمودار ہو گی توان میں ایک دوسرے سے اکتاہٹ بڑھے گی، جو کہ برتن کھڑکنے تک جائے گی- دو دشمن ریاستیں ، جب ایک ہی خطے میں رھنے پر مجبور ھوں تو حد بندی ضروری ہوتی ہے-

ایڈیٹوریل پالیسی میڈیا کو بہت حد تک سنبھالے ہوئے تھی- بہت آئیڈیل نہ سہی لیکن گزارہ چل رھا تھا- میڈیا اور اس کو چلانے والی ایڈیٹوریل پالیسی کا نعم البدل دنیا کو 5G انٹر نیٹ، موبائل، ٹویٹر، ٹک ٹاک ،فیس بک، انسٹا کی شکل میں دے دیا گیا ہے- اب ریاستیں ملکی معیشیت بھی بچا رہی ہیں اور اپنی عزت بھی-

گئے وقتوں میں بچے ہمسائے کی کنڈی کھٹکٹھا کر بھاگ جایا کرتے ہیں- سوشل میڈیا بھی ریاستوں کی کنڈی کٹھکٹھا رہا ہے اور قابو نہیں آ رھا-

سوشل میڈیا دنیا کا خطرناک ترین ہتھیار بن چکا ہے ، اور یہ ہر شہری کے پاس ہے – جو اس کا غلط استعمال نہیں بھی کر رھے وہ کم از کم پوسٹ فارورڈ کر کے کنڈی ضرور کٹھکٹھا رھے ہیں – سوشل میڈیا کا نہ کوئی ایڈیٹوریل کنٹرول ہے، نہ کوئی سمت – آپ بغیر کسی روک ٹوک کے ، کہیں سے بھی کسی کی کی بھی کنڈی کٹھکٹھا سکتے ہیں – بلکہ کنڈی کٹھکٹھانے کی پیمنٹ بھی ہو رہی ہے- اردو لغت میں ایک لفظ ہے ” شتر بے مہار” – وہ لفظ صدیوں سے تلاش میں تھا کہ میں نے منسوب کس سے ہونا ہے – اب جا کے اس کی تشنگی “سوشل میڈیا” کی کے ساتھ نسب جوڑ کے پوری ہوئی ہے-

الفاظ کو ان کے معنی مل جائیں تو وہ امر ہو جاتے ہیں- “شتر بے مہار” بالاخر امر ہو گیا۔

close