13 جولائی 1931, 22 مؤذن اور ایک اذان! یوم شہداء کشمیر کے حوالے سے حمزہ شہریار محبوب کی تحریر

 

موت ایک اٹل حقیقت ہے۔ جس سے انکار ممکن نہیں ۔ گویا طریقہ فطرت اور قانون قدرت کے تحت اس حقیقت سے آشنائی ہر ذی روح کا مقدر ہے۔ مگر اک مشہور شعر ہے کہ

جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا،وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے،اس جان کی تو کوئی بات نہیں

لہذا شان نصیب ہونے کا تعلق مقصد حیات، طریقہ موت اور نظریہ زندگی سے منسلک ہے۔ یہ امتیازی حیثیت اسی صورت میں ہی مل سکتی ہے کہ جب موت کسی نظریہ و عمل کے وجود کے ساتھ واقع ہو۔ اللہ اکبر کی صدا کے ساتھ رتبہ شہادت اور لاالہا الاللہ ھو محمد الرسول اللہ کی گواہی سے سفر آخرت ہر مسلان کی خواہش و باعث شرف ہے۔
یہ شرف آج سے بانوے برس قبل کشمیر کے ان بایئس افراد کو 13 جولائی 1931 کو حاصل ہوا ۔ کہ جب ایک کشمیری رہنما کو باغی قرار دیکر گرفتار کرنے پر سرینگر سینٹرل جیل کے سامنے کشمیریوں نے احتجاج کیا۔دوران احتجاج اذان کا وقت ہوا۔ ایک نوجوان نے اللہ اکبر کی صدا بلند کی۔ مگر ڈوگرہ فوج نے فائر کھول دیا۔ جس کے نتیجہ میں مصرع اولین یعنی “اللہ اکبر” کے ساتھ ہی جانثار کی جاں اللہ کو پیاری ہوئی۔ اذان کا سلسلہ نہ رکا۔ کلمات ادا ہوتے رہے، شہادتیں ہوتی رہیں ۔ ازان کا آخری جملہ ادا ہوا تو بایسویں کشمیری نے جان قربان کی۔ گویا یہ جان فشانی نظریہ پاکستان کی حقیقی اساس بنی، کہ جس کے بعد مسلمانوں کی جداگانہ ریاست کا حصول ناگزیر ہوگیا۔

سرینگر جیل میں مقید عبدالقدیر کے حق میں اکھٹے ہونے والے مجمع کی وجہ اجتماع کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے 13 جولائی سے چند ایام قبل 21 جون 1931 کو سید علی ہمدانی کی درگاہ میں فرزندان کشمیر کا ایک جلسہ منعقد ہوا جس میں انہوں نے ایک ہندو کانسٹیبل کے ہاتھوں توہین قرآن پر احتجاج کیا تھا۔ یہ جلسہ اختتام پذیر ہونے ہی والا تھا کہ اچانک مجمع سے اجنبی نوجوان، عبدالقدیر خان کھڑا ہوا اور اس نے عوام کو مخاطب کرتے ہوئے انہیں ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی دعوت دی۔ اس واقعے کے بعد ریاست کی انتظامیہ نے عبدالقدیر خان کو گرفتار کرلیا اور اس پر عوام کو بغاوت پر اکسانے کا مقدمہ قائم کردیا۔ یہ مقدمہ چونکہ اپنی نوعیت کا پہلا مقدمہ تھا لحاظہ عام لوگوں کو ملزم سے ہمدردی اور اس مقدمے سے بڑی دلچسپی پیدا ہوگئی۔ تیرہ جولائی 1931 کو سینٹرل جیل کشمیر میں عبدالقدیر خان پر قائم کردہ مقدمے کی سماعت کا آغاز ہوا۔

اسی موقع پر ملزم سے اخوت اور یکجہتی کے مظاہرے کے لیے ہزاروں افراد جیل کے احاطے کے باہر جمع ہوئے اور یہ دن تاریخی اہمیت اختیار کر گیا ۔

یوں مذہبی بنیاد پر اپنے حق کے حصول کی خاطر جدوجہد کا تصور، مذہبی فریضہ کی ادائیگی کے دوران دی گئی قربانی سے عیاں ہو کر الگ وطن کے حصول کی جدوجہد میں استخارہ و مثال بن گیا۔

اس واقعہ کی بازگشت پورے ہندوستان میں سنائی دی۔کشمیر کمیٹی کا قیام عمل میں لایا گیا ۔ 14 اگست 1931 کا دن یکجہتی کشمیر کے عنوان سے منایا گیا۔ اور 25 جولائی 1931 کو ہی شملہ میں آل انڈیا کشمیر کانفرنس کا اہتمام ہوا۔جس میں حکیم الامت علامہ اقبال نے شرکت کی۔ گویا 13 جولائی 1931 کے دن نے دین کی سربلندی کی خاطر جان فشانی نے ہندوستان و کشمیر کے مسلمانوں میں مذہبی و سیاسی جداگانہ حیثیت کا تاثر عیاں کرنے میں اہم اور بنیادی کردار ادا کیا۔ کہ جس جداگانہ سوچ و نظریہ کے تحت کی پاکستان حاصل ہوا اور تحریک کشمیر آج بھی جاری ہے۔

13 جولائی 1931 کو طویل جدودجہد کی اساس تو قائم ہوئی مگر تکمیل نظریہ کےلیے ہزاروں قربانیاں آج تک کشمیر کی دھرتی کے جاں فروش دے چکے ۔ چاہے وہ اسی ماہ جولائی کی 8 تاریخ کو 2016 میں برہان مظفر وانی کی شہادت کی صورت میں ہو یا سید علی گیلانی کی تاعمر جددوجہد کی صورت میں، چاہے وہ یسین ملک کہ جدودجہد ناتمام کی صورت میں ہو یا چاہے وہ مقبول بٹ کی دلی کی تہاڑ جیل میں شہادت ہو یا ریاض نایکو کی دور شباب میں شہادت کی صورت میں، چاہے وہ لاکھوں شہادتوں کی صورت میں ہو یا یکے بعد دیگرے انہی بائیس افراد کی شہادت کی صورت میں ، چاہے وہ نامعلوم قبروں کی صورت میں ہو یا چاچا آزادی کے نعروں کی صورت میں، گویا ہر میدان میں ،ہر طرح سے نظریہ حق پر کاربندی ملت کشمیر کے باسی ادا کر چکے۔
یوں اپنے عمل سے قربانی کی گواہی دینے والے خوش نصیب علامہ اقبال کے اس شعر کے داعی بن چکے۔

گرچہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں
مجھے ہے حکم ازاں لا الہ ھا الاللہ

یہ سلسلہ سرفروشی آج بھی جاری ہے۔ مگر ہمیں یہ جانچنا ہے کہ کیا ہم بطور مسلمان و پاکستانی یا کشمیری ان کشمیریوں کے حق کی ترجمانی نہ کر کے بے حسی کا مظاہرہ تو نہیں کر رہے۔ اوپر درج اقبال کے اس شعر کے دوسرے مصرع کے داعی تو باسی کشمیر بن چکے۔ مگر کہیں پہلے مصرع میں بت و جماعت کی آستین کا تعلق ہماری کشمیریوں کے حق خودارادیت سے بددیانتی و خیانت سے تو نہیں؟ اگر ایسا ہے تو قول و عمل سے روش بدلنے کی ضروت ہے تاکہ ہم بھی لاکھوں کشمیریوں کی قربانیوں کی گواہی دیکر حق کی سربلندی اور بھارتی سامراج کے خلاف جدوجہد میں اپنا حق ادا کرکے اللہ کے حضور سرخرو ہو سکیں۔

close