لاہور (پی این آئی) سینئر صحافی کا کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمن کو سینیٹ انتخابات کے لیے ان لوگوں نے ہی راضی کیا ہے جو انہیں کہتے تھے کہ آپ کے بغیر ریاست کا تصور ممکن نہیں،آپ کے بغیر حکومت مکمل نہیں ہوتی،آپ کے بغیر پارلیمنٹ مکمل نہیں ہوتی۔اگر کل کو قومی اسمبلی کے الیکشن ہوتے ہیں اور آپ
دوبارہ الیکشن نہیں جیت پائے تو پھر کیا کریں گے۔مولانا فضل الرحمن کو کہا گیا کہ اب آپ کو سینیٹر بنایا جائے گا۔سینیٹر بنانے کے بعد اگر مسلم لیگ ن ، پیپلز پارٹی اور اتحادیوں کے سینیٹرز زیادہ ہو جاتے ہیں تو پھر آپ کو چئیرمین سینیٹ بنانے کا امکان پیدا ہو جائے گا۔مولانا فضل الرحمن ان دنوں بہت متحرک ہیں،انہیں یقین دلایا جا رہا ہے کہ بس آپ ہی سب کچھ ہیں۔مولانا کو کہا گیا ہے کہ پہلے آپ کو سینیٹر اور پھر چئیرمین سینیٹ بنایا جائے گا۔لیکن ایک بات بتا دوں کہ مولانا کے ساتھ ایک بار پھر ہاتھ ہو جائے گا۔رانا عظیم نے مزید کہا کہ اگر مولانا سینیٹر بن جاتے ہیں تو وہ پارلیمنٹ کا حصہ بن جائیں گے اور پھر وہ وہاں پر شور شرابا بھی ڈال سکیں گے۔مولانا فضل الرحمن اب مکمل طور پر پر امید ہیں اسی لیے وہ فرنٹ فٹ پر کھیل رہے ہیں۔ رانا عظیم نے مزید بتایا کہ شہباز شریف کو سائیڈ لائن کر کے مریم نواز کو پارٹی کا صدر بنانے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔شہباز شریف پچھلی مرتبہ جب اپنی پیشی پر آئے تو اُس سے قبل بھی اُن کی جیل میں اور اُس کے علاوہ بھی کچھ ملاقاتیں ہوئیں۔انہوں نے اس مرتبہ پیشی کے موقع پر اپنی کور کمیٹی کی ٹیم کو یہ پیغام پہنچایا ہے کہ اب آپ متحرک ہو جائیں نہیں تو مسلم لیگ ن کی صدر مریم نواز کو بنایا جا رہا ہے۔ میاں شہباز شریف کو مختلف ذرائع سے یہ خبر ملی ہے کہ انہیں بالکل کارنر کیا جا رہا ہے اور اُنہیں کارنر کیوں کیا جا رہا ہے ؟ جب محمد علی درانی کی ملاقات ہوئی تو اُس سے قبل پے رول پر رہائی کے دوران شہباز شریف نے نیشنل ڈائیلاگ کی بات کی تھی۔ان معاملات پر مریم نواز بھی نالاں تھیں جبکہ نواز شریف کو بھی کہا گیا تھا کہ آپ کے بھائی آپ کے ساتھ نہیں رہے۔ میاں نواز شریف یہ ماننے کو تیار نہیں ہیں لیکن ان کے قریبی رفقا نے انہیں یہ یقین دہانی کروا دی ہے کہ اگر آپ شہباز شریف کا ساتھ دیں گے تو آپ کا بیانیہ دم توڑ جائے گا اور مسلم لیگ ن جو کہ آپ کی اپنی جماعت ہے ، آپ کے ہاتھ سے نکل جائے گی۔ اُس کے بعد ہوا یہ کہ میاں نواز شریف نے شہباز شریف کو بالکل کارنر کر دیا جائے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں