لاہور (پی این آئی) سینئر تجزیہ کار ہارون الرشید نے کہا ہے کہ جنرل شجاع پاشا کو گورنر سندھ لگایا گیا تو بڑا ردعمل آئے گا، تحریک انصاف جنرل شجاع پاشا کو بطور گورنرپسند نہیں کرے گی، گورنر عمران اسماعیل پر عدم اعتماد ہوسکتا ہے، لیکن فی الحال تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے نجی ٹی وی کے پروگرام
میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ جنرل شجاع پاشا اور ذوالفقار مرزا کو گورنر سندھ لگانے کی بات افواہ ہے، خبر نہیں ہے، یہ افواہ بڑی سلیقہ مندی سے گھڑی گئی ہے۔گورنر عمران اسماعیل پر عدم اعتماد ہوسکتا ہے، لیکن وہ بیمار ہیں، فی الحال ان کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ اگر گورنر راج لگانا، یا کوئی بڑا قدم اٹھانا ممکن ہو تو پھر گورنر کو تبدیل کیا جاسکتا ہے، لیکن اس کام کیلئے ذوالفقار مرزا اور جنرل شجاع پاشا دونوں موزوں نہیں ہیں۔اس لیے کشیدگی بہت بڑھ جائے گی، ذوالفقار مرزا وہی ہیں، جنہوں نے دو لاکھ لائسنس جاری کیے، وہ شادی بیاہ پر فائرنگ کیلئے نہیں کی، اسی طرح شجاع پاشا کو گورنر لگایا گیا تو ان کی بہت مخالفت ہوگی، کیونکہ ان کا سندھ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ سندھ میں گورننس کیوں بہتر نہیں ہورہی ، اس کی وجہ سندھ میں دنیا کا بدترین جاگیرداری نظام ہے۔مجھے پیرپگارا نے کہا کہ زرداری نے مجھے5 ارب آفر کیے کہ الیکشن میں ہمارا ساتھ دیں۔ انہوں نے کہا کہ پارٹی دستور میں ہے کہ کوئی شخص پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ نہیں دے سکتا، سندھ کا خدا حافظ ہے، گورنر کو تبدیل نہیں کیا جارہا، کیونکہ اگر شجاع پاشا کو لگایا تو بڑا ردعمل ہوگا، اگرچہ عمران اسماعیل مقبول نہیں ہے، لیکن کراچی کا مینڈیٹ پی ٹی آئی کے پاس ہے۔دوسری جانب سابق وزیرداخلہ سندھ اورگرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے مرکزی رہنما ڈاکٹر ذوالفقارعلی مرزا کو گورنرسندھ بنائے جانے کی افواہیں ایک بارپھر زورپکڑ گئی ہیں اورسیاسی حلقوں کے علاوہ سوشل میڈیا پران کے گورنر بننے کے حوالے سے بحث چھڑگئی ہے۔ موجودہ گورنرسندھ عمران اسماعیل کی جانب سے چند روزقبل دیے جانے والے متنازعہ بیان کے بعد سندھ کی سیاسی سماجی اور قوم پرست جماعتوں نے ان کے بیان پرشدید ردعمل کا اظہارکیا تھا جس میں موجودہ وفاقی حکومت کی سندھ میں حلیف جماعتیں بھی شامل تھیں۔گورنرسندھ کے بیان کے بعدان کی تبدیلی کے مطالبات بھی سامنے آئے تھے جب کہ ان کی اب تک کی کارکردگی کے حوالے سے بھی بحث ہوئی تھی اسی تناظر میں یہ افواہیں گشت کررہی ہیں کہ موجودہ گورنر سندھ کو ہٹایا جارہا ہے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں