پاکستان میں شوگر کے مریضوں کی تعداد 2 کروڑ کے قریب پہنچ گئی،2030ء تک 2 کروڑ 62 لاکھ مریضوں کے ساتھ پاکستان چوتھے نمبر پر آجائے گا

کراچی (این این آئی) پاکستان میں ذیابیطس کے مرض نے وبائی صورت اختیار کرلی ہے ،اس وقت 19ملین سے زیادہ افراد اس مرض کا شکار ہیں، تقریباً 14.4فیصد وہ افراد ہیں جنہیںذیابیطس لاحق ہونے سے پہلے والامرحلہ لاحق ہوگیاہے ،اگر فوری تدارک نہ کیا گیاتو دنیا میں ذیابیطس میں مبتلا افراد کی درجہ بندی

میںپاکستاان 2030ء تک 26.2ملین افراد کے ساتھ چوتھے نمبر پر آجائے گا۔ ان خیالات کا اظہار گزشتہ روز کراچی کے ایک مقامی ہوٹل میںڈایا بیٹک ایسوسی ایشن آف پاکستان اور عالمی ادارہ صحت کے اشترا ک سے ذیابیطس کے عالمی دن کی مناسبت سے ’’نرس اور ذیابیطس‘‘ کے موضوع پر منعقدہ سمپوزیم سے ڈایا بیٹک ایسوسی ایشن آف پاکستان کے سیکریٹری جنرل،بانی ممبر ڈایا بٹیس ان ایشیاء اسٹڈی گروپ، ڈائریکٹربقا ئی انسٹیٹیو ٹ آف ڈایا بٹیس و اینڈوکرائنالوجی ،پروفیسر آف میڈیسن بقا ئی میڈیکل یونی ورسٹی اور ماہر ذیابیطسپروفیسر عبد الباسط،ڈایا بیٹک ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جوائنٹ سیکریٹری ،سر سید میڈیکل کالج و ہسپتال کے ڈائریکٹر شعبہ ذیابیطس و اینڈو کرائنالوجی اور پروفیسر آف میڈیسن اینڈ ہیڈ آف ڈیپارٹ مینٹ سر سید کالج آف میڈیکل سائنسز کے پروفیسرایم زمان شیخ ،ڈائریکٹر انڈر گریجویٹ پروگرامس ،ڈاکٹر ضیاء الدین یونی ورسٹی، کالج آف نرسنگ کی محترمہ فرحانہ تبسم ،ڈایا بیٹک ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جوائنٹ سیکریٹری ،پروفیسراینڈ ہیڈ آف ڈیپارٹ مینٹ اسرا یونیورسٹی کراچی کی ماہر امراض زنانہ پروفیسر شبین ناز مسعود ، پروفیسر احمد بلال اور تقریب کے مہمان خصوصی سابق گورنر سندھ اوروفاقی وزیرداخلہ لیفٹیننٹ جنرل(ر)معین الدین حیدر نے خطاب کرتے ہوئے کیا۔پروفیسر عبد الباسط عالمی سطح پر ذیابیطس کی تیزی سے بڑھتی ہوئی شرح پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت پوری دنیا میں ذیابیطس میں مبتلا افراد کی تعداد463ملین سے زیادہ ہے اگر اسکی روک تھام کے لیئے اقدامات بروئے کار نہ لائے گئے تو امکان ہے کہ 2030ئ؁ تک ذیابیطس میں مبتلا افراد کی تعداد576ملین تک پہنچ جائے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ذیابیطس ایک کہنہ اور تاحیات رہنے والا مرض ہے اور تحقیقات سے ثابت ہے کہ ذیابیطس قسم دوم عموماً خاندان میں چلتی ہے۔ ذیابیطس میں مبتلاہر دو افراد میں سے ایک فرد اپنے مرض سے لاعلم ہے لہذاخاندان میں موجودخطراتی عوامل رکھنے والے افراد کی فوری نشاندہی ضروری ہے ۔ خطراتی عوامل مٹاپا، غیر متحرک و غیر فعال زندگی، خاندان میںذیابیطس کا مرض ہونا،وہ خواتین جن کو حمل کے دوران ذیابیطس ہوئی ہو، بڑھتی ہوئی عمر وغیرہ پر مشتمل ہیں۔ ذیابیطس قسم اول لاحق ہونے سے تو نہیں بچایاجاسکتا تاہم ذیابیطس قسم دوم کو معیاری وزن اور متحرک زندگی سے روکا جاسکتا ہے جسکے لیئے متوازن و منا سب غذا اور روزانہ نصف گھنٹہ کی ورزش یا تیز تیزچہل قدمی ضروری ہے اوریہ بات مختلف تحقیقات سے عیاں ہے کہ80ٰٖفیصد افرادکو ذیابیطس قسم دوم لاحق ہونے سے بچایا جا سکتا ہے ۔اسکے علاوہ ذیابیطس کی فوری نشاندہی سے ممکنہ پیچیدگیوں سے بھی محفوظ رہ سکتے ہیں۔پروفیسر عبد الباسط نے ’’پاکستان میں ذیابیطس کی موجودہ صورتحال‘‘ پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں بھی ذیابیطس کے مرض نے وبائی صورت اختیار کرلی ہے اس وقت 19ملین سے زیادہ افراد اس مرض کا شکار ہیں۔ تقریباً 14.4فی صد وہ افراد ہیں جنہیںذیابیطس لاحق ہونے سے پہلے والامرحلہ لاحق ہوگیاہے اگر فوری تدارک نہ کیا گیاتو دنیا میں ذیابیطس میں مبتلا افراد کی درجہ بندی میںپاکستان 2030ء تک 26.2ملین افراد کے ساتھ چوتھے نمبر پر آجائیگا ۔تقریباً 9.6ملین بچے زائد وزن یا موٹاپے کا شکار ہیں۔ پچھلے کچھ سالو ں میںبلند فشارِ خون میں دُگنا اور مٹاپے میں تین گنا اضافہ ہواہے۔ ذیابیطس کی شرح اور پیچیدگیوں میں اضافہ سے اخراجات بھی بڑھ گئے ہیں مثلاً پیروں کی پیچیدگی پر 21سے378پائونڈ خرچ آتا ہے ۔ نہ صرف ذیابیطس کی شرح میں اضافہ ہورہاہے بلکہ ممکنہ پیچیدگیاںبھی بڑھ رہی ہیںجس سے اخراجات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ ۔۔۔

close