حق نا حق ، ممتاز دانشور فیاض باقر کی سلسلہ وار تحریر ،کچرا کمائی

پاکستان میں کچرے کے انبار دیکھنے سے ہمیں اپنی اجتماعی بد انتظامی دیکھنے کو ملتی ہے۔ ہماری گلیاں، سڑکیں ، میدان، ندیاں ،دریا ، سمندر سب کُوڑے دان کی شکل اختیار کر چُکے ہیں۔ نالیوں ، خالی پلاٹوں، اور بجلی کے کھمبوں کے ساتھ آپ کو پلاسٹک کےتھیلوں کے ڈھیر ملیں گے۔ ندیوں اور برساتی نالوں میں آپ کو میونسپل کمیٹیوں کے ٹرک کوڑا پھینکتے نظر آئیں گے اور کارخانوں سےنکلنے والی کیمیائی غلاظت اسی راستے سے خارج ہوتی ہے۔ایسے لگتا ہے کہ ہم ارد گرد کچرا پھیلا نہیں رہے ہم کچرے میں رہ رہے ہیں۔اس کچرے سے رسنے والا زہر ہمارے پانی، سبزیوں اور خوراک کا حصہ بن گیا ہے۔ اس بد انتظامی کو بہ آسانی دور کیا جا سکتاہے۔ اور اس طرح ہزاروں نوجوانوں کو روزگار مل سکتا ہے اور کروڑوں لوگو ں کو بیماریوں سے بچایا جا سکتا ہے۔

گھر بار ، اور گلی محلے کی صفائی کو سمجھنے سے ہمیں اپنے طرز حکومت کو سمجھنے اور عوام کی قوت سے کام لینے کا طریقہ جاننے میں مدد ملتی ہے۔ ہمارے گھروں سے جو کچرا باہر جاتا ہے وہ کمائی کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ ذرا غور کیجئے ہم اپنی لا علمی سےاپنے اجتماعی منافع کو نقصان میں کیسے تبدیل کرتے ہیں۔ سب سے پہلے تو ہم سب اس غلط فہمی میں مُبتلا ہیں کہ گھروں سے کچرااُٹھانا خاکروب کا کام ہے۔حالانکہ خاکروب کا کام صرف گلی میں جھاڑو پھیرنا ہے۔ گھروں میں موجود کُوڑے میں گلنے سڑنے والےکُوڑے، دوبارہ کام میں آنے والی چیزیں اور تلف کرنے والی چیزوں کو الگ کرنا ہر گھر کی ذمہ داری ہے۔ گھر سے کچرے کو میونسپلکمیٹی کے بنائے گئے کچرا دان تک پہنچانا بھی اُن کی ذمہ داری ہے۔ کچرا دان میں پہنچنے سے پہلے کچرا الگ نہیں کیا جاتا اس لئےکچرے میں کام کی چیزیں تلاش کرنے والے کباڑیے تمام کچرا باہر نکال کر کچرا دان کے گرد پھینک دیتے ہیں اور بوتلیں، ٹین اور دوسریکام کی چیزیں نکال لیتے ہیں۔ اپنی صحت کو بھی خطرے میں ڈالتے ہیں اور کچرا کُنڈی کا مقصد بھی پورا نہیں ہوتا۔

کچرے کو گھر پر الگ کر لیا جائے اور گھر کی دیوار سے باہر نہ پھینکا جائے ، گھر کی نالیوں، برساتی ندیوں اور دریاؤں میں نہ بہایاجائے تو کچرا دان ( کچرا کُنڈی) میں مال تلاش کرنے والے گھروں سے دوبارہ کام میں آنے والا مال اُٹھائیں گے۔ گلی سڑی سبزیاں اورپھل قدرتی کھاد بنانے والے لے جائیں گے اور کاروبار کا ایک نیا شعبہ پھیل جائے گا اور میونسپل لمیٹی کی کچرا کُنڈی میں وہی کچراپہنچے گا جو دفن کرنے کے لئے مخصوص جگہ پر جانا چاہئے۔ اسی طریقے سے کام کرتے ہوئے اختر حمید خان میموریل ٹرسٹ نےمردان شہر میں کچرے سے قدرتی کھاد بنانے کے لئے پانچ ٹن گنجائش رکھنے والا پلانٹ لگایا ہے۔ اُس میں حکومت، شہری اور کچرااُٹھانے اور قدرتی کھاد کا کام کرنے والے سب خوش ہیں۔ اس تجربے نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ تالی تین ہاتھ سے بجتی ہے۔یہ کام پورے پاکستان میں ہو سکتا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ مٹی سے سونا بنانا جادُو کا کام ہے۔ یہ جادُو اب سیکھا جا سکتا ہے۔سکھانے والے موجود ہیں۔ سیکھنے والے کہیں نہیں ہیں۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں