حق نا حق، ممتاز دانشور فیاض باقر کی سلسلہ وار تحریر، شکاریوں کو مارخور کا محافظ کیسے بنایا گیا؟

بلوچستان میں قلعہ سیف اللہ کے قریب واقع تور غر کا علاقہ مار خوروں کی پناہ گاہ ہے۔ یہاں یہ نایاب جانور بڑی تعداد میں موجودہیں -علاقے کی پختون آبادی کو مارخور کے شکار کا شوق ورثے میں ملا ہے۔ ہر مرد بندوق کا مالک ہے۔ مارخوروں کے مسلسل شکارکی وجہ سے اُن کی آبادی اتنی کم پڑ گئی کہ جنگلی حیات کا تحفظ کرنے والی بین الاقوامی تنظیم نے اُن کا نام ریڈ لسٹ میں ڈال دیا۔ریڈ لسٹ کا مطلب ہے اُن جانوروں کی فہرست جن کی بقا خطرے میں ہے اور اگر فوری طور کوئی بڑا قدم نہ اُٹھایا گیا تو اُن کے ختمہونے کا خطرہ ہے۔ شکاریوں کو شکار سے روکنے کی تبلیغ کرنا ایسے ہے جیسے گھوڑے کو گھاس کھانے سے منع کیا جائے یا محکمہخاندانی منصوبہ بندی کے اشتہاروں کے ذریعے آبادی کم کرنے کی کوشش کی جائے ۔

جنگلی حیات بچانے کے لئے کام کرنے والے بہت سے ماہرین نے اس پر سوچنا شرُوع کیا۔ پھر پتہ نہیں کس کے ذہن میں بلب روشن ہوا۔ایک نہایت ہی منفرد اور دلچسپ نظریہ کسی نے پیش کیا جس کے مطابق گھوڑے کو گھاس کا روزہ رکھنے پر راضی کیا جا سکتاتھا۔ یہ نظریہ شاید باہر سے ہی آیا تھا۔ کیونکہ نقش پا یہی بتاتے تھے۔ کیونکہ اس نظریے کا نام انگریزی میں تھا اس لئے کسیانگریزی بولنے والے دیس کے انگریز اُستاد نے ہی ایجاد کیا ہو گا۔ اس نظریے کا نام تھا ٹرافی ہنٹنگ۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ آپ کےشکار کھیلنے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔کسی غیرت مند پٹھان کو شکار کرنے سے کون روک سکتا ہے۔ لیکن آپ کو شکار کا پرمٹ مقامیتنظیم سے خریدنا پڑے گا۔ ہر سال ایک خاص تعداد میں پرمٹ جاری ہوں گے۔ ان کی بولی لگے گی اور سب سے زیادہ بولی دینے والےکو پرمٹ مل جائے گا۔ پرمٹ سے ملنے والی رقم مقامی آبادی کی ترقی اور بہتر ی پر خرچ ہو گی اور شکار پر پابندی پر عملدرآمد کرانےکیلئے مقامی آبادی سے ہی گارڈ مُلازم رکھے جائیں گے اور ٹرافی سے ملنے والی رقم سے اُن کی تنخواہ بھی دی جائیگی۔ اس معاہدےکے تحت شکاریوں کو شکار نہ کرنے کا فائدہ ملنے لگا۔

ٹرافی ہنٹنگ کا نظام شروع کرنے سے پہلے مقامی کاکڑ قبیلے کے سردار نے جرگہ بُلایا اور جرگے نے اس تجویز کو منظور کر لیا۔ یہبھی طے ہوا کہ تور غر کے علاقے سے موسمی نقل مکانی کے درمیان گزرنے والے کوچی قبائل سے بھی اس معاہدے کی پابندی کرائیجائے گی۔ ٹرافی کی نیلامی کے لئے بین الاقوامی بولی لگائی گئی اور پہلا پرمٹ ساڑھے سات ہزار ڈالر میں ایک امریکی شکاری کےپاس فروخت ہوا۔ اس کے بعد ہر سال لگ بھگ چار پرمٹ بیچے جاتے تھے۔ اُس سے مقامی آبادی کو ترقیاتی منصوبوں کے لئے فنڈ ملنےلگے۔ملازمتیں ملیں۔ شکاریوں کو ضابطے کے مطابق شکار ملا اور مار خور کی آبادی بھی بڑھنے لگی۔ اس طرح کی دانائی کے بارےمیں انگریزی محاورہ ہے کہ آپ کیک کو اس طرح سے کاٹیں کہ ہر کوئی یہ سمجھے کہ سب سے بڑا ٹُکڑا مُجھے ملا ہے۔

قومی خزانہ لُوٹنے والوں کو قومی خزانے کا محافظ بنانے کے لئے بھی قوانین میں اسی طرح کی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ یہ کام عقلسے ہو سکتا ہے طاقت کے اندھا دھُند استعمال سے نہیں ہو سکتا۔ نہ ہی نعرے لگانے، دھُواں دھار تقریریں کرنے یا لوگوں کو سبز باغدکھانے سے ہو سکتا ہے۔ ہمیں شاید یو اے ای اور سنگا پُور کے قوانین کا مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک اصُول پر اتفاق لازمی ہے۔منتخب نمائندے قانون سازی کریں اور قانُون سازی کرنا سیکھیں۔ سرکاری مُلازمین ملازمت کریں۔پیسے کمانے کا شوق ہو تو سیاستیا مُلازمت سے استعفا دیں اور کاروبار کریں۔ اقتدار میں شریک ہونا ہے تو سرکاری اختیارات کی بندُوق نہ چلائیں عوامی نمائندگی کاپرمٹ حاصل کریں ۔ انتخابات جیتیں اور میدان میں آئیں-

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں