پاکستان میں انتخابی، انقلابی، اور سماجی تینوں طریقوں سے انسانی ترقی کی کوششیں کی گئی ہیں۔ تینوں طریقوں کو جو چیلنج درپیش ہیں اور جس حد تک کامیابی حاصل ہوئی ہے میں اُس کا ذکر کرنا چاہتا ہوں تاکہ انفرادی طور پر ہمیں فیصلے کرنے میں آسانی ہو سکے۔
انتخابی سیاست کا بنیادی مقصد قانون سازی کے ذریعے اقتصادی معاملات کا حل نکالنا ہوتا ہے۔لوگوں کی زندگیاں بہتر بنانے کاتعلق جن قوانین سے ہیں اُن میں براہ راست اور بالواسطہ ٹیکس کی شرح طے کرنا، زرعی اصلاحات کرنا، مسلح افواج کے دفاعی اور غیر دفاعی بجٹ کی مقدار طے کرنا، نجی اور ریاستی سرمایہ کاری کے لئے مراعات پر قرضے حاصل کرنا یا قرضوں کے بغیر سرمایہ کاری کرنا شامل ہے۔ ٹیکس کی وصولی بڑھانا اور قرضوں اور اخراجات کو کم کرنا ہماری قانون سازی کا بنیادی چیلنج ہے۔
پاکستان میں جو طبقات اور اُن کے نمائندے قانون سازی کرتے ہیں وہ ٹیکس میں اپنا حصہ دینے کو تیار نہیں ہیں۔ ہماری ریاست کواپنی فلاحی ذمہ داریاں پوری کرنے کے لئے کم از کم کل قومی آمدنی کا 20 فیصد ٹیکس کی شکل میں وصول کرنا چاہئے ۔ لیکن پچھلے پچھتر سال میں ہماری ٹیکس وصولی کی شرح 10 فیصد کے قریب رہی ہے۔ ریاستی اداروں نے سرکاری وسائل کی کمی تین طریقوں سے پوری کی ہے۔ قومی وسائل خاص طور پر زمینوں پر غیر قانونی قبضہ کر کے۔ غیر مُلکوں سے رعایتی قرضے لے کر یا عوام کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے لئے بھتہ وصول کر کے۔ سو پہلا سوال یہ ہے کہ قانون سازی کے ذریعے بھتہ ختم کر کے ٹیکس کی شرح کیوں نہیں بڑھائی گئی۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ قرضوں کی جگہ براہ راست سرمایہ کاری کیوں نہیں کی گئی۔ تیسرا سوال یہ ہےکہ دفاعی بجٹ کو متوازن کیوں نہیں کیا گیا۔ چوتھا سوال یہ ہے کہ انسانی ترقی اور ریاست کے فلاحی معاملات پر مناسب بجٹ کیوں خرچ نہیں کیا گیا؟
پاکستان کے پہلے عام انتخابات 1970 میں اُن بنیادی معاملات پر عوامی لیگ کی طرف سے منصفانہ قانون سازی کا “خطرہ” درپیش تھا۔ اس لئے عوامی لیگ کی قیادت پر غداری کا لیبل لگا کر اُس سے نجات حاصل کر لی گئی۔ ان معاملات پر اب بھی قانون سازی کی ضرورت ہے۔ لیکن اس کے لئے اسمبلی میں دو تہائی اکثریت کی حمایت کی ضرورت ہے۔ سادہ اکثریت حاصل ہونا کافی نہیں ہے۔ قانون سازی میں آصف زرداری کے استثنی سے کسی بھی سیاسی پارٹی کیلئے اپنی ہی پارٹی کے ارکان کی اکثریت کا ووٹ حاصل کرنا بھی تقریباً نا ممکن ہوتا ہے۔اسمبلی کے اراکین کی اکثریت مسودہ قانون تیار کرنے اور اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی۔ خود وزرائے اعظم اسمبلی کے اجلاس میں وقت گذارنے کی زحمت کم ہی کرتے ہیں۔قانون سازی کا کام بیوروکریسی کرتی ہے اور منظوری عام طور پر صدارتی آرڈینینس کے ذریعے ہوتی ہے۔
مسلح بغاوت کے ذریعے سیاسی تبدیلی کو بھی پاکستان میں آزمایا گیا ہے۔سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق پاکستان کی تمام بڑی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے پاس مسلح جتھے موجود ہیں۔ ان میں سے کُچھ مسلح جتھوں کا کام زمینوں پر قبضہ کرنا اور بھتہ وصول کرنا تھا۔ کُچھ جتھے اپنے سے مختلف عقیدہ رکھنے والوں کی لاشیں گرانا “کار خیر” سمجھتے ہیں ۔بلوچ تین مرتبہ آزاد ریاست قائم کرنے کیلئے مُسلح بغاوت کر چُکے ہیں۔ پختونوں نے تحریک طالبان پاکستان کے ذریعے امارت اسلامی وزیرستان قائم کرنے کیلئے مُسلح کاروائیاں کی ہیں۔ ایم کیو ایم ووٹ اور اسلحے کی قوت اور پچاس سال تک حکومت میں شریک رہنے کے باوجود سیاسی ،مالی اور انتظامی اختیارات مقامی حکومت کو منتقل کروانے کیلئے قانون سازی نہیں کر سکی۔ اُن کے بہُت سے دھواں دھار سیاسی رہنُما اپنی سیاسی نا اہلی کو چھُپانے کے لئے مُسلح انقلاب کی دھمکیاں دیتے رہے ہیں -سرائیکی اور سندھی آبادی میں کچے کے علاقے میں خود رو مسلح دستے ڈاکے کے ذریعے مالی وسائل میں اپنا حصہ محاصل کرتے رہے ہیں۔۔ پاکستان میں کسی مُلک گیر مُسلح بغاوت کے ذریعے کسی سیاسی تبدیلی کا کوئی امکان نہیں ہے۔ افغانستان میں طالبان نے دو دفعہ مُسلح طاقت کے ذریعے سے اقتدار حاصل کیا ہے۔لیکن اُنہیں بھی حکومتی نظام چلانے کے لئے مغربی ممالک کی تربیت یافتہ سول سوسائٹی کی مدد ضرورت ہے۔اور وہ مسلح قوت سے عالمی نظام میں اپنی تنہائی دُور نہیں کر سکے۔ایک تجربہ کار انتظامیہ کے بغیر وہ حکومت نہیں چلا سکتے۔طالبان نے حکومت پر تو قبضہ کر لیا ہے۔لیکن حکومت پر قبضہ کرنا اور ایک فلاحی نظام قائم کرنا دو مختلف چیزیں ہیں۔ ہمارے ہمسایہ مُلک ہندوستان میں کمیونسٹوں نے جمہوری سیاست کے ذریعے سے مُسلح لڑائیوں کے مقابلے میں بڑی کامیابیاں حاصل کیں۔ اس لئے بندوق کی طاقت کی بجائے ووٹ کی طاقت کے ذریعے تبدیلی لانا ایک بہتر سیاسی راستہ ہے۔
پاکستان کے محنت کش طبقات نے پارلیمانی یا مسلح سیاسی قیادت کی بجائے اپنے حقوق ان سول سوسائٹی کے ذریعے ریاستی اداروں کے اہلکاروں کو بھتہ ادا کر کے حاصل کئے ہیں- کروڑوں کی تعداد میں محنت کشوں کو اپنے سروں پر چھت “قبضہ مافیا” کے ذریعے حاصل ہوئی- تھانے اور کچہری سے انصاف حاصل کرنے کے لئے غریب شہری چٹی دلالوں کو بھتہ دیتے ہیں۔ بجلی کُنڈی لگا کر ملتی ہے۔سرکاری نوکریاں لینے یا تبادلے کروانے کیلئے بھی وہ سرکاری افسران یا اپنے مُنتخب نمائندوں کو بھتہ ادا کرتے ہیں۔
اقتصادی نظام کی تبدیلی کی بحث میں بھی اس وقت ایک بُنیادی تبدیلی آ چُکی ہے۔ 1929 کے بعد سرمایہ دار ممالک اور 1992 کے بعد سوشلسٹ ممالک میں مخلوط معیشت قائم ہو چُکی ہے۔ اس وقت اصل سوال ذرائع پیداوار پر نجی یا اجتماعی ملکیت قائم کرنا نہیں۔ بلکہ قومی آمدنی میں عوام کا جائز حصہ مانگنا ہے۔ اس نکتے کو تھامس پکٹی نے بھی استحصال کے خاتمے کے حل کے طور پر پیش کیا ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ کسی بھی سماجی تبدیلی کا مرکزی نقطہ ایک ترقی پسندانہ اور منصفانہ ٹیکس کا نظام ہونا چاہئے۔ قومی سطح پر انتخابی یا انقلابی طریقے سے ٹیکس کے نظام میں تبدیلی کی لڑائی جیتنے کیے لئے عوام کے پاس کوئی پارٹی نہیں ہے۔ عوام مقامی طور پر اپنے آپ کو منظم کر کے قریہ بہ قریہ، قدم بہ قدم اپنی لڑائی جیت سکتے ہیں۔ وہ حکومت سے ٹکرا کر نہیں سودا بازی کرنے کا طریقہ سیکھ کے اور حکومتی نظام کے اندر اپنے تانے بانے بنا کے کامیابی حاصل کرسکتے ہیں ۔ اُس کے راستے میں صرف ایک نظریاتی رکاوٹ ہے۔ وہ انتخاب اور انقلاب کی لفاظی پر یقین رکھتے ہیں حکومت سے اشتراک کر کے مسائل حل کرنے پر اعتماد نہیں رکھتے۔اُن کے خیال میں ایک طبقے کی جیت دوسرے طبقے کی ہار ہے۔ روایتی سیاستدان بھی اشتراک کی سیاست کو زیرو سم سیاست سمجھتے ہیں یعنی عوام کی جیت کو خواص کی ہار سمجھتے ہیں۔ یہ تمام حکمران ٹولے کی سوچ ہے۔ لیکن تبدیلی کا ایک اشتراک پر مبنی طریقہ ہے جس میں ایک طبقے کی جیت میں دوسرے طبقے کی جیت بھی ہو سکتی ہے۔ جسے ہم سب نے اندھے اور لنگڑے کی کہانی میں پڑھا ہے۔ جس میں حکومت اور عوام ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔
یہ دلچسپ بات ہے کہ ہم سب اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ برطانوی راج کی پالیسی تھی لڑاؤ اور حکومت کرو۔ اور جب کوئی کہےکہ لڑائی ختم کرو اور حکومت کے مالک بنو تو ہم سمجھتے ہیں ہماری آزادی ختم ہو رہی ہے۔پاکستان میں حکومت سے اشتراک کرنےکی حکمت عملی کے ذریعے حکومت کے اندر اور باہر موجود روشن ضمیر افراد اور اداروں نے عوام کو وسائل میں اپنا حصہ لینے کی لڑائی میں بے مثال مدد دی ہے۔ اس کے ذریعے سے بڑے پیمانے پر روٹی، کپڑا اور مکان کی لڑائیاں اُنہوں نے جیتی ہیں۔یہ لڑائی چھوٹے پیمانے پر شرُوع ہو کر بڑے پیمانے تک کامیابی کی طرف لے کر جا سکتی ہے۔ یہ نکتہ پنجاب کے صوفی شاعر شاہ حُسین نےاس طرح بیان کیا ہے۔
سُرت دی سوئی پریم دے دھاگے پیوند لگے ست سنگے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں