پاکستان میں سکھر بیراج اور چشمہ بیراج کے درمیان ایک ہزار سے زیادہ ڈولفن آباد ہیں۔ اُنہیں سندھ کی نابینا ڈولفن کہا جاتا ہے۔اُن کے بارے میں سائنسدانوں کا خیال ہے کہ تقریباً 50 لاکھ سال پہلے یہ بینائی سے محرُوم ہو گئی تھیں۔ دریائے سندھ میں کشتیوں میں بسنے والے ملاحوں کی ایک کثیر تعداد ہے۔ اُنہیں سندھ کے کنارے آباد سرائیکی اور سندھی لوگ مُہانڑا کہتے ہیں۔ یہ کشتیوں میں روزی کماتے ہیں، سوتے ہیں، رہتے ہیں اور کھاتے پکاتے ہیں۔ دریا سے ان کا روحانی رشتہ ہے اور خواجہ خضر کو یہ اپنا روحانیپیشوا سمجھتے ہیں۔ ڈولفن کو مُہانڑیں اور مقامی لوگ بُلھنڑ کہتے ہیں لیکن ان میں سے اکثر لوگ اُنہیں افسانوی دُنیا سے تعلق رکھنےوالی جل پری سمجھتے ہیں۔ تیس چالیس سال پہلے بائیو ڈائورسٹی کے ماہرین کو احساس ہوا کہ سندھ کی ڈولفن خطرے کا شکار ہےاور اسے بچانے کے لئے ہر سطح پر کوشش کرنی چاہئے ۔
ڈولفن کی بقا کو درپیش خطرات پر تحقیق کی گئی تو پتہ چلا کہ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ بیراجوں سے نہروں کو پانی کی سپلائیروکنے کیلئے جب دروازے بند کئے جاتے تھے تو نہروں میں موجود ڈولفن وہاں پھنس جاتی تھیں، واپس نہیں آ سکتی تھیں اور نہریں خُشک ہونے کی صورت میں مر جاتی تھیں۔ مُہانڑوں کو ڈولفن کو دریا میں واپس لانے کا صحیح طریقہ معلوم نہیں تھا- مُہانڑوں اورمقامی آبادیوں کو ڈولفن ، اس کی اہمیت اور اس کو بچانے سے اُنہیں پہنچنے والے فائدوں کا علم نہیں تھا۔ ایڈو نچر فاؤنڈیشن،محکمہ جنگلی حیات اور یُو این ڈی پی نے مُہانڑوں کو ڈولفن بچانے میں مرکزی کردار ادا کرنے کے لئے تربیت دینے کا فیصلہ کیا۔مُہانڑوں کی ڈولفن بچانے میں دلچسپی پیدا کرنے کیلئے سوچا گیا کہ ڈولفن سفاری کا پروگرام شروع کیا جائے تاکہ مُہانڑوں کو اسکام سے مالی فائدہ بھی ہو اور جو لوگ ڈولفن دیکھنے کے لئے دریا کی سیر کرنے آئیں اُنہیں ڈولفن کو جاننے کا موقع ملے اور اس کوبچانے کی کوششوں میں دلچسپی پیدا ہو۔
مُجھے بھی اپنے یُو این ڈی پی کے دوستوں کے ساتھ تونسہ بیراج پہ واقع ڈولفن سفاری پروگرام میں جانے کا موقعہ ملا۔ یہاں ڈولفن کے بارے میں بہت دلچسپ باتیں معلُوم ہوئیں ۔ پہلی بات تو یہ کہ ڈولفن پانی میں رہتی ہے مگر یہ مچھلی نہیں ہے۔ یہ ممالیہ جانور ہےجو گرم خون رکھتی ہے، بچے جنتی ہے انڈے نہیں دیتی، پھیپھڑوں سے پانی سے باہر آکے سانس لیتی ہے پانی کے اندر رہ کرگلپھڑوں سے سانس نہیں لیتی، اپنے بچوں کو دُدھ پلاتی ہے اور اس کے جسم پر بال ہوتے ہیں۔ ان کے ممالیہ ہونے کی وجہ سے ان کارہن سہن بہت دلچسپ ہوتا ہے۔ آپ نے ڈولفن کی جو تصویریں یا وڈیو دیکھیں ہیں اُن میں یہ اُچھل کر بار بار پانی سے باہر آرہی ہوتیہیں۔ ڈولفن نے کیوں کہ ہوا میں آکر سانس لینا ہوتا ہے اس لئے یہ ہر دو تین منٹ بعد اُچھل کر پانی سے باہر آتی ہے۔ یہ اپنی گردن سےسانس لیتی ہے اور پانی میں واپس چلی جاتی ہے۔ سوال یہ ہوتا ہے کہ اگر اُسے مسلسل ہوا میں اُچھلنا اور پانی میں واپس جانا ہے تویہ نیند کیسے کرتی ہے۔ پانی میں اُچھلنے اور واپس جانے کے ایک چکر میں ڈولفن تقریباً تیس سیکنڈ کے لئے سو جاتی ہے۔ اسےمائکرو نیند کہتے ہیں۔ اس مائکرو نیند کے ذریعے ڈولفن دن میں آٹھ گھنٹے نیند پوری کر لیتی ہے۔ بند نہروں میں پھنسی ہوئی ڈولفن کوبچانا اور اُسے حفاظت سے دریا میں واپس لانا بہت مہارت کا کام ہے۔ ڈولفن سانس تو پانی سے باہر آکر لیتی ہے لیکن اسے اگر زیادہدیر تک پانی سے باہر کسی ٹرک یا رہڑی میں رکھ کر دوسری جگہ لے جانے کی کوشش کی جائے تو اس کی کھال پھٹنا شروع ہوجاتی ہے۔ اس لئے اُسے ایک جگہ سے دوسری جگہ لیجانے کیلئے اُس پر مسلسل پانی بہانے کا انتظام کرنا پڑتا ہے۔ دوسرے اُسے نہرسے گاڑی میں رکھتے ہوئے نہایت احتیاط سے کام لینا پڑتا ہے۔ اُس کو ایک خاص پوزیشن میں گاڑی میں نہ لٹایا جائے تو ڈولفن کودوبارہ پانی میں اُترنے کے بعد اپنے معمولات جاری رکھنے میں مُشکل پیش آتی ہے اور یہ بات اُس کے لئے خطرے کا باعث بن سکتی ہے۔
ہم سفاری کے لئے کشتیوں میں بیٹھے تو ہمیں بہت دلچسپ معاملات کا پتہ چلا۔ ڈولفن سفاری کے لئے ایڈونچر فاؤنڈیشن نے جومُہانڑے چُنے اُنہیں کمال کی چیزیں سکھائی گئیں۔ سب سے پہلے اُن کی بے رنگ کشتیوں کو نقش و نگار سے مزین کر کے خوبصورتبنایا۔ پھر مُہانڑوں کو بُلہنڑ کے بارے میں تفصیل سے سمجھایا گیا۔ اُن کی کشتیاں اب ڈولفن سفاری کا کاروبار بن گئیں۔ کشتی پر اُنکے باورچی نے نہایت خاموشی سے پندرہ بیس لوگوں کے لئے نہایت عُمدہ کھانے تیار کئے۔ شام کو کشتی میں ہی محفل موسیقیمنعقد کی۔اور رات ہوتے ہی دریا کنارے کشتی باندھ کر سب کے سونے کے لئے خیمے لگا دیے۔ اگلی صُبح کشتی پر ڈولفن دیکھنے کےلئے سیر شروع ہوئی۔ سب سے مُشکل کام یہ پتہ چلانا ہوتا ہے کہ اس وقت ڈولفن کا غول دریا کے کس علاقے میں ہو گا۔ کیونکہ وہ اپنیجگہیں تبدیل کرتی رہتی ہیں۔ نظر آ جائیں تو اُن کی تصویر لینا مُشکل ہوتی ہے ۔ لیکن یہی چیز سیاحوں کی دلچسپی اور تجسس کوقائم رکھتی ہے۔ مُہانڑوں کو پتہ چل گیا کہ سیاحوں کی حیرانی کو ڈولفن کی دُنیا میں جھانکنے کا ذریعہ بنایا جائے۔مُہانڑوں نے اپناپرانا کام نئے طریقے سے کرنا سیکھا تو زیرو سے ہیرو تک پہنچ گئے۔ یہی طریقہ ہم سب کو سیکھنے کی ضرورت ہے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں