حق ناحق، دلدار گوٹھ- مٹی کو سونا بنانے کی کہانی، ممتاز دانشور فیاض باقر کی سلسلہ وار تحریر

دلدار گوٹھ کراچی کے کنارے پر واقع سینکڑوں دیہی آبادیوں میں سے ایک ہے۔ یہاں پر زمین کے وسیع قطعات موجود ہیں لیکن ان زمینوں کے مالک دیہاڑی دار مزدوروں کے طور پر برس ہا برس سے کراچی میں کام کر رہے تھے۔ اختر حمید خان کا دلدار گوٹھ سے گُذر ہوا اور وڈیرہ اللہ بخش سے اُن کی مُلاقات ہوئی ۔ اللہ بخش اپنے دل میں اپنے علاقے کے لوگوں کے لئے درد رکھتا تھا۔دلدار گوٹھ رند بلوچوں کا گاؤں ہے جہاں دو سو سال پہلے پانی کے چشموں کے گرد وہ آٹھ گوٹھوں میں آباد ہوئے۔ یہ گاؤں اورنگی سے دس کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ یہاں کی زمین بنجر تھی اور بارش بہت کم ہوتی تھی اور لوگ مکئی اور باجرہ اگاتے تھے۔ آمدنی غیر یقینی اور کم ہونے کی وجہ سے ُاُن کا گزارہ بکریاں اور مویشی چرانے پر تھا۔ وہ دودھ بیچتے تھے، یا مزدوری اور گدھا گاڑیاں چلانے کا کام کرتے تھے۔اس طرح فاقہ کشی سے تو بچ جاتے تھے لیکن غُربت کے چنگل سے نہیں نکل سکتے تھے۔اُنہیں یہ پتہ نہیں تھا کہ اُن کی مٹی سونا اُگل سکتی ہے۔ لیکن اُنہیں ایک کیمیا گر کی مدد مل گئی جو مٹی کو سونا بنانا جانتا تھا۔ اس کیمیا گر کا نام اختر حمید خان تھا۔ اُن لیڈروں سے بالکل مختلف جنہوں نے ہمارے دیس کو سونے سے مٹی میں بدل دیا ہے۔ اختر حمید خان کو ان دیکھی دُنیا دیکھنے کا فن آتا تھا۔

خان صاحب نے وڈیرہ اللہ بخش اور اُس کے گاؤں والوں سے پوچھا تمہارے خیال میں غریبی سے نکلنے کا کیا طریقہ ہے۔ تو اُنہوں نے جواب دیا نوکریاں مل جائیں یا نہر آجائے۔ اختر حمید خان کی توجہ اس طرف گئی جدھر اُنہوں نے دھیان نہیں دیا تھا۔ دلدار گوٹھ میں ستر خاندان تھے اور اُن کے پاس سات سو ایکڑ زمین تھی ۔ اور کراچی شہر کو لکڑی ، پھل ، سبزیاں اور دودھ کثیر مقدار میں چاہئے تھا جو وہ اپنے کھیتوں میں پیدا کر سکتے تھے۔اُنہوں نے مقامی لوگوں سے کہا تمہارے پاس اتنی زمین ہے۔ زمین کاشت کیوں نہیں کرتے؟ سائیں کیسے زمین کاشت کریں؟ پانی نہیں ہے۔ پانی کیسے لائیں؟ سائیں سرکار نہر نکال کے دے تو کھیتوں کو پانی مل سکتا ہے۔ اختر حمید خان نے کہا پانی کے چشمے تو ہیں۔ سائیں ہیں۔تو اُن کا پانی کفایت سے استعمال کرو۔ کفایت کا کیا مطلب ہے۔ چشمے سے گدھا گاڑی میں پانی اُٹھاؤ اور پھلدار پودوں کی جڑوں میں پہنچاؤ۔ زیادہ پانی مانگنے والی فصلیں مت لگاؤ۔زمین کی قوت بڑھاؤ۔وڈیرہ محمد بخش کو یہ بات سمجھ آئی تو اُس کی آنکھوں میں چمک آگئی۔ لیکن زمین کو ہموار کرنے اور پودوں کو بکریوں سے بچانے کے لئے باڑھ لگانے کے لئے سرمایہ چاہئے وہ کہاں سے لائیں۔ اختر حمید خان نے کہا اورنگی ٹرسٹ تمہیں قرضہ دے گا جو تمہیں ماہوار قسطوں میں واپس کرنا پڑے گا۔ لیکن ہم زمین رہن نہیں رکھیں گے وڈیرہ اللہ بخش نے کہا۔ اس کی کوئی ضرورت نہیں لیکن تم اپنی زبان دو گے کہ قرض ہر مہینے واپس کرو گے۔
وڈیرہ اللہ بخش کو اورنگی پائلٹ پروجیکٹ کے دفتر آنے کی دعوت دی گئی اور اُسے وہاں پر 16قسم کے درخت، 14 قسم کے پھلدار پودے، 8 قسم کی صحرائی علاقوں میں اُگنے والی جھاڑیاں دکھائی گئیں جو دلدار گوٹھ میں اُگانے سے وہاں کی مٹی سونے میں بدل سکتی تھی۔ فروری 1991 میں اورنگی پروجیکٹ نے اُسے پہلا قرضہ 25,000 روپے کا دیا۔اپنی زمین پر باغ بنانے کا خواب ایک نشے کی مانند تھا۔ اُس نے 4 ایکڑ زمین پر باڑھ لگا کر چارہ اُگانا اور درخت لگانے شروع کیے۔ بہت سے درخت سُوکھ گئے۔لیکن اُس نے کام جاری رکھا۔پھر وہ 80 ناریل کے درخت، 40 کھجور کے درخت، 50 چیکو، 15 انار، اور بہت سے جنگلاتی درختوں کے باغ کا مالک بن گیا۔ اُس نے چارہ اُگانا اور کراچی کی مارکیٹ میں روز کا ڈھائی من دودھ بیچنا شروع کر دیا۔ اُسے دیکھ کر گوٹھ کے دوسرے لوگوں نے بھی اپنے باغ اُگانے کا فیصلہ کیا۔ اور بیسیوں ایکڑ کے رقبے میں پھلدار درخت لگائے، چارہ اُگایا اور عام درخت کاشت کئے۔اُن تمام زمینداروں نے پیسہ بھی کمایا، اپنے قرضے بھی وقت پر واپس کئے۔یہ پروگرام جو 1991 میں شروع ہوا تھا 1993 تک 22 گوٹھوں میں پہنچ گیا۔ پاکستان کو قدرت نے بے شمار وسائل سے مالا مال کیا ہے۔ اُن سے کام لے کر مٹی کو سونا بنانے کا فن جو لوگ جانتے ہیں وہی یہاں قیادت کا حق رکھتے ہیں۔ یہ لوگ آپ کو سرکاری دفتروں میں نہیں ملیں گے غریبوں کی بستیوں میں ملیں گے۔ یہ وہ کام کر سکتے ہیں جو حکومتی ایوانوں میں نہیں ہو سکتے۔۔۔۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں