جنرل مُشرف کی حکومت میں اُن کے وفاقی وزیر ریلوے نے ریلوے میں خسارہ پورے کرنے کے نام پر مختلف شہروں میں ریل کی پٹڑیوں کے ارد گرد قائم ریلوے مزدوروں کی بستیاں گرا کر گالف کلب اور مہنگے کاروباری پروگرام شروع کئے۔ ریلوے سے مزدوروں کی بڑے پیمانے پر بیدخلیاں بھی شرُوع کیں۔ اس منصوبے کے تحت کراچی سرکلر ریلوے کے لئے بنائی گئی پٹڑی کے گرد گھروں کو گرانے کا اعلان ہوا اور راولپنڈی میں بھی۔
کراچی میں خاموشی اور گمنامی سے کام کرنے والے درویشوں کا ایک ادارہ تھا اور راولپنڈی میں انتہائی نیک دل اور نیک نام وزیر عمر اصغر خان تھے جو مقامی حکومت اور کچی آبادیوں کے معاملات کے وزیر تھے۔عمُر کو مشورہ دینے والوں میں انسانی حقوق کے لئے وا ویلا کرنے والے کئی پُر جوش اور “انقلابی” دانشور اور “متحرک” کارکُن تھے۔ دونوں جگہوں پر بیدخلی کے خلاف لڑائی شروع ہوئی۔ کراچی میں بستیوں والے کامیاب رہے اور راولپنڈی میں یکسر ناکام ہو گئے۔ ان دونوں معرکوں کی کہانی بیان کرنے سے آپ کو “انقلابی” اور عملی قیادت کے طریقے میں فرق نظر آ جائیگا۔ اس قطرے میں آپ کو آج کی سیاست کا دجلہ بھی نظر آ جائے گا۔
کراچی میں جب بیدخلیوں کا اعلان شرُوع ہوا تو سرکار نے مزدور بستیوں کو گرانے کا یہ قانونی جواز بنایا کہ جو عمارتیں ریلوے کی پٹڑی سے تیس فُٹ کے فاصلے کے اندر ہیں وہ ریلوے کی زمین پر نا جائز قبضہ کر کے بنائی گئی ہیں حکومت اُنہیں کوئی متبادل زمین دئے بغیر گرا دے گی ۔ اس کا اخلاقی جواز یہ ہے کہ یہ سرکاری وسائل پر قبضہ ختم کرنے کی مُہم ہے۔ مقامی درویشوں کے ادارے نے اپنے دو کارکُنوں کے ذمے یہ کام لگایا کہ ریلوے کی پٹڑی کے گرد واقع تمام تعمیرات کا نقشہ بناؤ اور اُن کا پٹڑی سے فاصلہ ناپو۔ اس نقشہ بنانے کی مہم کے دوران بے شمار ملٹی نیشنل کمپنیوں کی کروڑوں روپوں سے تعمیر کردہ کثیر منزلہ عمارتوں کا انکشاف ہوا۔ مقامی ادارے نے اس نقشے کو چھاپا اور کچی آبادی کے مکینوں میں تقسیم کر دیا اور اُنہیں بتایا کہ ہمارا کام قلمبندی کرنا تھا تمہارا کام اپنی لڑائ لڑنا ہے۔ ہم نے تمہیں ہتھیار تیار کر دیا ہے اسے چلانا تُم نے ہے۔ یہ لڑائی تُمہاری ہے۔ اور تم یہ لڑائی جیت سکتے ہو۔ کوئی “مسیحا” یہ کام نہیں کر سکتا۔ لوگوں نے نقشے سے “بندوق کی نالی” کا کام لیا اور جنگ جیت لی۔
راولپنڈی میں “انقلابی” لیڈروں کی تقریروں کے بعد مُعاملہ کابینہ میں پیش ہوا۔ وفاقی وزیر ریلوے جاوید اشرف قاضی اور عُمر اصغر خان دونوں نے اپنا مُقدمہ پیش کیا۔ عُمر اصغر خان نہایت باکردار اور با اصُول انسان تھے ۔ اُنہوں نے اصُولی بنیاد پر مزدوروں کے حق کی وکالت کی۔ جاوید اشرف قاضی نے اعداد و شمار پیش کئے کہ وہ کس طرح ان بستیوں کو اُکھاڑ کر ریلوے کے خسارے کو نفع میں تبدیل کر دیں گے۔ اور مزدوروں کا غیر قانُونی قبضہ ختم کرنے سے ایک “جُرم” کی تلافی ہو گی۔ ایک مضبوط اخلاقی مُقدمہ کمزور شواہد کی بنیاد پر ہارا گیا۔ عُمر نہایت ذہین اور قابل انسان تھے۔ اکنامکس کے پروفیسر رہے تھے اور اعداد و شمار جمع کرنے اور اُن کا تجزیہ کرنے میں جاوید اشرف قاضی سے کوسوں آگے تھے۔ لیکن وہ لڑائی کی صحیح تیاری کر کے نہیں آئے تھے۔ اخلاقی اور نظریاتی جسم کو حقائق کے پاؤں چاہئے ہوتے ہیں۔ اس کے بغیر لڑائی نہیں جیتی جا سکتی۔ علم اور حقیقت کا راستہ درویش قیادت کا راستہ ہے اسی لئے درویش تخت و تاج ہلانے کی قوت رکھتے ہیں۔وہ انقلابی نظریات کا ورد نہیں کرتے عمل کرتے ہیں۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں