پاکستان میں 1970 کی دہائی میں روٹی کپڑا مکان کا نعرہ گھر گھر پہنچ گیا۔ یہ پیپلز پارٹی کا پروگرام تھا۔ 1970 سے 1980 کی دہائی میں بھُٹو صاحب کی حکومت نے کئی قدم اُٹھائے لیکن ان میں سے کوئی خواب پُورے نہ ہو سکے- 1980 کی دہائی میں شہریوں نے حکومت سے مطالبے کرنے کی بجائے اُن معاملات کا حل اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ حکومت سے ٹکراؤ کی بہت سی اُن کہی کہانیاں میں گاہے گاہے بیان کرتا رہوں گا۔ لیکن اب وقت آگیا ہے کہ لوگوں کی فتح کی کہانیاں بیان کی جائیں تاکہ وہ آگے بڑھیں یہ لڑائ ہر شخص اپنی گلی ، محلے ، گاؤں میں جیت سکتا ہے۔ اب بھٹیاں دہکنے کا وقت ہے، اب صرف روشنی نظر آنی چاہئے۔ اگلے بہت سے کالموں میں میں لوگوں کی شاندار فتوحات کی کہانیاں بیان کروں گا۔
روزگار، تعلیم ، صحت، کی تلاش میں جب غریب لوگ شہروں میں آتے ہیں تو پہلی ضرورت سر پر چھت کی ہوتی ہے۔میرے اُستاد اختر حمید خان کہا کرتے تھے پاکستان میں غربت کا بہت بڑے پیمانے پر خاتمہ نقل مکانی کرنے سے ہوا ہے۔ اگر ترقی غریب کے پاس نہیں جاتی تو غریب ترقی کے پاس چلا جاتا ہے۔ اس لئے کہا جاتا ہے کہ کراچی غریب کی ماں ہے۔ چھت ملتی ہے تو نوکری ملتی ہے۔ اور روٹی کپڑا ملتا ہے۔ تعلیم اور دوا کا بند وبست ہوتا ہے۔ یہ کام تو ریاست کے کرنے کا تھا۔ جیسے کہ حبیب جالب نے کہا تھا
روٹی کپڑا اور دوا، رہنے کو گھر چھوٹا سا
مُفت مُجھے تعلیم دلا، میں بھی مُسلماں ہوں واللہ
پاکستان کا مطلب کیا، لا الہ الا اللہ
لیکن یہ کام لوگوں کو خود ہی کرنے پڑے۔کیوں کہ ہمارے نظام میں ناکام پالیسیوں اور منصوبوں کو کامیاب طریقے سے مسلسل نافذ کرنے کا اصول نہایت مقبول رہا ہے۔اور ناکامیوں کی ذمے داری سازشوں اور خفیہ ہاتھوں پر ڈالی گئی ہے۔ ناکام سوچ کے سرپرست بہت رہے ہیں اور کامیاب مثالوں کو یتیمی کا درجہ حاصل رہا ہے۔ میں اس مرتبہ ناکام سوچ کے روایتی طریقے بیان کرنا چاہتا ہوں۔ آئندہ نشستوں میں کامیابیوں کی کہانیاں سُناؤں گا۔
ہمارے نظام میں غریبی کے خاتمے کے پانچ روایتی طریقے رائج رہے ہیں ۔مجمع بازی، بابو گیری، ڈیرہ داری ، چائے پانی اور نعرے بازی ۔عوام اور اُن سے محبت کرنے والے سیاستدانوں ، افسروں اور دانشوروں کا طریقہ ان سب سے مختلف ہے۔ روایتی طریقے وعدوں کے کارو بار کے طریقے ہیں اور عوامی طریقے دو جمع دو چار کے طریقے ہیں۔ میں ذرا ان کی وضاحت کر دوں۔مجمع بازی سیاست دانوں کی مرغُوب غذا ہے۔اس میں لیاری کو پیرس بنانے ، کشکول توڑنے اور تین مہینے میں رشوت ختم کرنے کے وعدے شامل ہیں۔ یہ خوابوں کا جُمعہ بازار لگانے کا فن ہے۔ اسی بارے میں ایک سرائیکی شاعر نے کہا تھا۔
ایڈے مٹھڑے کُوڑ نہ بول وے میں تاں رُل ویساں
بابو گیری سرکاری افسروں کا من پسند چلن ہے جس میں منٹوں کا کام گھنٹوں میں کیا جاتا ہے۔ آپ پوسٹ آفس اور ایزی پیسہ سے پیسے کسی جگہ بھجوائیں تو آپ پر دونوں طرح سے کام کرنے کا فرق واضح ہو جائیگا ۔ بابو لوگ پرانے زمانے کے ٹیلیگراف آفس کی طرح کام کرتے ہیں ۔ جس میں مہنگی رقم دے کر شہر سے گاؤں ٹیلیگرام کے ذریعے فوری پیغام بھیجنے والا بندہ جب گھر پہنچ جاتا تھا تو اُس کا ٹیلیگرام دو دن بعد پہنچتا تھا۔ ڈیرہ دار عوام کی خدمت کرنے کی بجائے عوام سے خدمت لینا اپنا بنیادی فریضہ سمجھتا ہے۔ اور حکومتی عہدے اور ذاتی کاروبار میں فرق کرنے سے قاصر ہوتا ہے۔ وہ مزدور کا پسینہ خُشک ہونے کے بعد بھی اُس کا حق ادا کرنا ضروری نہیں سمجھتا۔ اُس کا پسندیدہ محاورہ ہے۔ جس کی لاٹھی اُس کی بھینس۔ سرکاری دفتروں میں کام کروانے کا غیر تحریر شدہ اصُول ہے چائے پانی کی ادائیگی۔ اس خیال کو شاعر نے اس طرح بیان کیا ہے۔
ہر چیز یہاں بکتی ہے بولو جی تم کیا کیا خریدو گے
نعرے بازی کی سوچ کے پیچھے یہ خیال کام کر رہا ہے کہ نعرے لگائے جائیں تو بنجر زمین سُونا اگلنا شروع کر دے گی۔ اس کام کے لئے زمین، پانی، ہوا، سورج، بیج ، روشنی کو جانچنے کی ضرورت نہیں ہے۔ نعرہ لگانے کی ضرورت ہے۔ آپ نعرہ لگائیں گے تو کُنواں آپ کے پاس چل کے آ جائیگا۔ نہ آئے تو اُس میں سراسر غلطی کنویں کی ہے۔لیکن ہمارے عوام نے ان مسائل کے منفرد اور کامیاب حل نکالے ہیں۔ ہمارے تعلیم یافتہ لوگوں کی تعلیم نو کے لئے ان کامیاب کہانیوں کو بیان کرنا ضروری ہے۔ آئندہ نشستوں میں میں ہر کہانی کی تفصیل بیان کروں گا۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں