حق ناحق، فیاض باقر کی سلسلہ وار تحریر، شرف الدین دیوانہ

مُلتان میں جب اُردو اکیڈیمی بنی تو اس کا نام اُردو اکادمی رکھا گیا۔ ہمارے ایک دوست نے کہا کہ اکادمی کا مطلب اک آدمی ہے۔ جو شخص کس ادارے کی سی وسعت اور ہمہ گیریت رکھتا ہوں اور اُس کی رُوح رواں ہو تو اُس کے لئے اکادمی کا لفظ کہنا موزوں ہے۔ مُلتان شہر میں افسر شاہی کی دھاندلیوں کے خلاف جرآت سے آواز اُٹھانے والی ایک اکادمی شرف الدین دیوانہ تھا۔ شرف الدین دیوانہ میری طرح اندرون ملتان شہر سے تعلق رکھتا تھا۔ جُمعہ کے دن مُلتان کے سب بازار بند ہوتے تھے۔ اُن دنوں چوک بازار مُلتان کا سب سے بڑا بازار تھا۔ شرف الدین دیوانہ جمعے کے دن بازار کے دونوں طرف دُکانوں کے سامنے کپڑے کے بڑے بڑے کتبے لٹکا دیتا تھا- اُن پر قرآن اور حدیث کی منتخب عبارات رقم ہوتی تھیں۔ عام طور پور وہ خود کہیں نظر نہیں آتا تھا۔ مُجھے اُس کے ذریعہ آمدنی کا کوئی علم نہیں ہے۔ میرے خیال میں وہ مسواک، تسبیحاں اور جائے نماز بیچتا تھا۔ یا چھوٹی موٹی تجارت کرتا تھا۔ اُس کے پاس کالج کی ڈگری، کسی سیاسی جماعت کا عُہدہ یا دولت کا انبار نہیں تھا۔ لیکن شاید اُس کی بیباکی کی وجہ سے لوگ اُسے شرف الدین دیوانہ کہتے تھے۔ ابن انشا کی زبان کو تھوڑا سا خم دیا جائے تو یوں کہ سکتے ہیں۔

سونا، روپا، چوکی، مسند کوئی مال منال نہیں ہے
لیکن یہ جوگی دل والا اے راہی کنگال نہیں ہے

شرف الدین لمبا ٹخنوں تک آنے والا لٹھے کا سفید کُرتا پہنتا تھا۔ سُرمہ لگاتا تھا، ہاتھ میں مسواک رکھتا تھا۔ اور کسی کی خوشی نا خوشی سے بے پروا اپنے من کے بتائے ہوئے راستے پر چلتا تھا۔ اُس کا مذہب اور اُس کی نیکیاں مسجد تک محدود نہیں تھیں۔ مسجد میں اللہ کے آگے سر جھُکانا اور مسجد کے باہر بندوں کے آگے سر نہ جھُکانا اُس کے دین دھرم میں شامل تھے۔ یہ 67-1966 کے دن تھے۔ ملتان کی ضلع کچہری کے سامنے اینٹی کُرپشن کا دفتر تھا اور ساتھ ہی پراپرٹی ٹیکس کا دفتر تھا۔ اینٹی کُرپشن کا کام کُرپشن کی شکایت درج ہونے کے بعد شروع ہوتا تھا- وہ بلی کے آگے سے دُودھ کا پیالہ نہیں ہٹا سکتے تھے لیکن دودھ ختم ہونے کے بعد اُس کی تفتیش کر سکتے تھے۔ اُن کے پاس شکایت درج کروانے اور لوٹ کا پیسہ واپس لینے کے لئے کسی فرد کی ایک زندگی کافی نہیں تھی۔ کاغذی کاروائی کا نتیجہ نہ نکلنے سے یہ پتہ نئی چلتا تھا کہ افسر نا اہل ہے، قانون کمزور ہے یا چور اور چوکیدار آپس میں ملے ہوئے ہیں۔ شرف الدین کے پاس اس طرح کی مُوشگافیاں کرنے کے کئے وقت نہیں تھا۔اُس کا ذہن اُس کی پوشاک کی طرح اُجلا تھا۔

میں ایک چیز بھول گیا۔ شرف الدین کو صاحب لوگوں تک رسائی حاصل کرنے کیلئے کلرک بادشاہ کی مُٹھی گرم نہیں کرنی پڑتی تھی۔ نہ ہی چائے پانی کا بند و بست کرنا پڑتا تھا۔اُس کے ساتھیوں میں مسواک کے علاوہ ایک بھونپُو بھی شامل تھا۔کلرک بادشاہوں سے یہ غلطی ہوئی کہ اُنہوں نے شرف الدین کے ٹوٹے پھوٹے گھر پر جس میں وہ خود رہتا تھا ناجائز پراپرٹی ٹیکس عائد کر کے ادائیگی کا حُکمنامہ بھیج دیا۔ شرف الدین اپنے بھونپُو کے ساتھ ٹیکس کے دفتر حاضر ہو گیا۔ دفتر کے باہر ادارے کے بہُت سے ستائے ہوئے لوگ اکٹھے تھے۔ شرف الدین نے کہا حضرات آج میں لُوٹ مار کے کاروبار کے خلاف آواز اُٹھانے آیا ہوں۔ پہلے تو کسی نے توجہ نہ دی۔ پھر لوگ اکٹھے ہونا شروع ہو گئے۔شرف الدین کی آواز اونچی ہوئ تو کلرک بادشاہوں کے کانوں تک پہنچی۔ ایک کلرک باہر آیا اُس نے کہا۔ اندر صاحب کام کر رہے ہیں۔ شرف الدین نے کہا میں بھی اپنا کام کر رہا ہوں۔ اُسے پتہ تھا صاحب نہ مُجھ سے کُچھ لے سکتا ہے نہ دے سکتا ہے۔ اُس نے کمیونسٹ مینی فیسٹو نہیں پڑھا تھا لیکن اُسے پتہ تھا کہ میرے پاس کھونے کو کُچھ نہیں لیکن جیتنے کو سارا جہان ہے۔

جب کلرک باد شاہ نے دیکھا کہ شرف الدین واقعی اپنے نام کے موافق دیوانہ ہے تو وہ چالبازیوں اور منتوں پر اُتر آیا۔ اُس نے کہا اندر آ جاؤ آرام سے بیٹھ کر بات کرتے ہیں۔اُس وقت کوئی ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نہیں تھی۔ لیکن شرف الدین کو پتہ تھا کہ اندر کی بات باہر لانا ہی دھونس اور دھاندلی کا علاج ہے۔ وہ وچوں وچوں کھائی جاؤ اُتوں رولا پائی جاؤ والوں میں سے نہیں تھا۔ اُس نہیں کہا بات باہر ہو گی اور صرف میری نہیں سب کی ہوگی۔ ابھی ہیومن رائٹس واچ شاید پیدا نہیں ہوئی تھی۔ لیکن شرف الدین کو حق اور نا حق کا فرق معلوم تھا۔اُس کی تربیت گاہ اُس کی مُلتانی ماں کی گود تھی۔ میں سوچتا رہ گیا یہ کیسے ہوا۔ پچاس سال گُزر گئے ہیں۔ لیکن دل دیوانے کو نہیں بھُولا۔

کر رہا تھا غم جہاں کا حساب
آج تُم بے حساب یاد آئے

میں بھی وہاں موجود تھا لیکن شرف الدین دیوانے سے ہاتھ ملانے کا موقع نہیں ملا۔ یہ خواہش ابھی تک زندہ ہے۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں