حق ناحق، فیاض باقر کی سلسلہ وار تحریر، چاچا مُسلم لیگی

پنجاب یونیورسٹی نیو کیمپس 1960 کی دہائی کے آخری سالوں میں بنا۔ یونیورسٹی کی گہما گہمی کا مرکز نہر کے کنارے کینٹین اور ہاسٹل کی دُنیا میں واقع کیفیٹیریا تھے۔ ان دونوں جگہوں پر جن لوگوں کی خوبصورت یادیں کبھی میرے حافظے سے محو نہیں ہوئیں وہ یہاں کے ذہین، پھُرتیلے، محنتی اور فراخدل بیرے تھے۔ اُن میں سے اکثر کے نام ابھی تک میرے ذہن کی دیوار میں روشن ہیں -ان میں گجرات سے تعلق رکھنے والا بزُرگ ویٹر چاچا محمد علی۔ کالے خان۔ مکھُن۔ آزاد اور دلدار تھے۔ ہاسٹل نمبر دو میں مُودے کی کینٹین تھی جہاں پر اُس کا ناول نگار بھائی عاصم صحرای بھی کام کرتا تھا۔ نہر کے پار ایک پٹھان کا کھوکھاتھا جسے ہم خان سنٹی مینٹل کہتے تھے۔ لڑکوں اور لڑکیوں کے ہاسٹلوں کے درمیان واقع شاپنگ سنٹر میں واقع پہلوان کی دودھ لسی کی دُکان اور ڈین بیکری بھی بھی رونق کا مرکز تھے۔

ویٹر محمد علی جسے اکثر لوگ چاچا کہتے تھے ایک یادگار شخصیت تھا۔ اُسے پتہ تھا کہ میں کمیونسٹ ہوں اور وہ سینہ پھُلا کر کہتا تھا کہ میں مُسلم لیگی ہوں۔ چاچے کو کیمونسٹوں سے بہت مُحبت تھی۔ کیمپس میں جب سُرخوں اور جماعتیوں میں “حق اور باطل” کی جنگ ہوتی تھی تو سر پھٹول سے بچنے کے لئے بعض اوقات ہمارے ہمدرد کینٹین میں پناہ لیتے تھے۔ چاچا چائے اور بسکٹ لاتا تھا اور اگر کوئی پیچھا کرتے ہوئے پہنچ جائے تو چائے پینے والے کی بیگناہی کی گواہی بھی دیتا تھا۔ اُدھار اس کے علاوہ تھا جس کی جلد واپسی کا اُس نے کبھی تقاضا نہیں کیا۔ پھر وہ چائے پینے والے سے کہتا تھا کیمونسٹو تہانوں مار پئی تے پناہ چاچے نے ای دینی اے۔ مُسلم لیگ وچ شامل ہو جاؤ۔ اُن دونوں لکشمی چوک کے قریب رائل پارک کے علاقے میں بہت سی فلم کمپنیوں کے دفتر ایک ٹریڈ یونین کے لوگوں کا بھی دفتر تھا۔ ایک دن پولیس چھاپہ مارنے پہنچی۔ چاچے نے ساتھ کے دفتروں سے باجے، سارنگیاں، طبلے اور ڈھول لا کر رکھ دئے اور پولیس والوں سے کہا یہ تو موسیقاروں کا ٹھیہ ہے۔یہ کہانی سُنانے کے بعد چاچا پھر فخر یہ انداز سے کہتا تھا کمیونسٹوں تہانوں مار پئے گی تے بچانا چاچے مُسلم لیگی نیں اے۔

پھر 1970 کی دہائ شروع ہوئ۔اُس وقت دائیں بازو کی مضبوط طالب علم تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ تھی اور بائیں بازو کی دو مظبوط جماعتیں تھیں نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن ( این ایس ایف) اور نیشنلسٹ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن ( این ایس او)۔ ان دونوں جماعتوں میں شدید رقابت تھی لیکن یونین انتخابات میں یہ مُشترکہ اُمیدوار نامزد کرتے تھے۔ ایوب خان کے زمانے میں یونیورسٹی یونین پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ یونین بحال ہونے کے بعد جب تیسرا انتخاب ہوا تو اُس میں جمعیت کا صدارتی اُمیدوار جاوید ہاشمی تھا۔ جاوید ہاشمی کے مقابلے میں بائیں بازو کا مُشترکہ اُمیدوار باسط وحید تھا۔ جس پینل نے بائیں بازو کے اُمیدواروں کا فیصلہ کیا میں اُس کا شریک چئیر مین میں تھا۔ ان انتخابات میں بعض طالع آزماؤں نے آگ بھڑکانے اور جنگ کے طبل بجانے کا کام کیا اور بدقسمتی سےاس کا نتیجہ خُون خرابے اور میری جماعت این ایس او کے 19 سالہ جوان کارکن برکات احمد کی شہادت میں نکلا۔ میں اُس وقت این ایس او پنجاب کا چیف کنوینر تھا۔برکات کے قتل سے نہ اسلام کی فتح ہوئی نہ سوشلزم کی۔ لیکن ایک بیوہ ماں اور بے بس بہنوں کی اُمید کا چراغ ہمیشہ کے لئے بُجھ گیا۔

ان انتخابات سے چند ماہ پہلے میں سر سید ہال میں ایک پریفیکٹ رُوم میں رہتا تھا۔ یہ خاصہ کُشادہ کمرہ تھا۔ میرا کالج کے زمانے کا ایک دوست ملک کریم بخش چند مہینے اس کمرے میں میرے پاس آ کر ٹھہرا۔ ملک کریم بخش ، میں اور جاوید ہاشمی کالج کے زمانے سے ایک دوسرے کو جانتے تھے۔ میں اور جاوید ہاشمی گورنمنٹ کالج ملتان میں سال اوّل میں ایک دوسرے کے خلاف کلاس نمائندے کے اُمیدوار تھے اور منظور خان کے مقابلے میں نشت ہار گئے- ملک کریم بخش سال دوم کے نمائندے کے طور پر منتخب ہو گئے اور ہڑتال کی قیادت کرنے پر اُنہیں کالج سے خارج کر دیا گیا۔ مُجھ سے اور جاوید ہاشمی سے ملک کریم بخش کا بہُت محبت کا تعلق تھا۔ چند ماہ بعد ملک صاحب جاوید ہاشمی کے کمرے میں منتقل ہوگئے اور ایک “کامریڈ” میرے کمرے میں منتقل ہو گیا۔ جب میں نے پریفیکٹ روم خالی کیا میں توں میں کامریڈ کے ساتھ رہنے لگا۔

برکات کے قتل کے بعد ہم نے ایف آئی آر درج کرائی تو جاوید ہاشمی کا نام حملہ آوروں میں درج کروایا۔ اُس وقت سُرخوں اور جماعتیوں کے درمیان اعصاب شکن تناؤ تھا۔ دونوں طرف نوجوان کچے ذہن ایک دُوسرے کے خوُن کے پیاسے تھے۔ ستم ظریفی سے جس “کمیونسٹ” گروپ کے ساتھ میں کام کر رہا تھا اُس کے اندر بھی اُنہی دنوں “حق و باطل” کا جان لیوا معرکہ شروع ہوا جس میں مُجھے “کجرووں” کی فہرست میں شامل کر دیا گیا۔ اُن کی نظر میں میرا جُرم برکات کے قتل سے بھی بڑا جُرم تھا۔جاڑے کی ایک لہو جمانے والی رات کو جاوید ہاشمی سے حساب لینے کی مہم چلانے کے بعد جب میں سونے کے لئے اپنے “کامریڈ” کے کمرے میں پہنچا تو اُس نے مُجھے اندر آنے سے منع کردیا۔باہر سردی تھی اور معرکہ ناحق کا خوف تھا اور کمرے میں داخل ہونا منع تھا۔ میں نے خیال کے گھوڑے دوڑائے۔ اور کریم بخش کے پاس جا پہنچا۔ جاوید ہاشمی اُن دنوں سٹوڈنٹ ٹیچر سنٹر میں یونین کی طرف سے ملے ہوئے کمرے میں رہتا تھا۔ میں نے ملک سے پوچھا میں رات تمہارے پاس رہ سکتا ہوں۔ ملک نے کہا بسر و چشم۔ میں نے کہا کوئی جماعتیا آگیا تو پھر ۔ ملک نے کہا یہ میرا کمرہ نہیں تمہارا کمرہ ہے۔

جس شخص کو قتل کے مُقدمے میں نامزد کیا اُس کے کمرے میں پناہ لینا اس لئے مُمکن ہوا کہ وہاں ملک کریم بخش موجود تھا۔ ملک کریم بخش میں بھی چاچے مُسلم لیگی کی طرح، ٹھہراؤ ، اعتدال، دانشمندی اور مُحبت کے جوہر موجود تھے۔ میں آج کے سیاسی منظر نامے میں پنجاب یونیورسٹی کی معرکہ آرائی کا عکس دیکھتا ہوں تو خیال آتا کہ ہمیں ایک دوسرے پر وار کرنے کی نہیں مرہم لگانے کی ضرورت ہے ۔ پھر سوال اُٹھتا ہے کیا ہمارے مُلک کو بھی ایک چاچے مُسلم لیگی کی ضرورت نہیں۔ وہ کہاں چھُپا ہوا ہے؟

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں