میں نے 1993 میں یُو این ڈی پی میں مقامی سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کو ماحولیاتی مسائل اور ترقیاتی مسائل حل کرنے کے لئے گرانٹ دینے کا پروگرام چلانا شروع کیا۔ میرے اُستاد اختر حمید خان تھے۔ اُنہوں نے پہلا سبق مُجھے یہ دیا کہ گھر ، گلی ، محلہ ، اور گاؤں سے کام شروع کرو۔ کام میں جان ہو گی تو یہ خود بخود پھیل جائے گا بلکہ لوگ خود آ کر کہیں گے کہ ہمیں کیوں پیچھے چھوڑ دیا۔ آپ کا کام صرف اتنا ہے کہ لوگوں کو اُن کے وسائل کے اندر رہ کر مِسئلہ حل کرنے کا راستہ دکھا دیں- میرے دماغ کو تو یہ بات سمجھ آگئی لیکن دل نے یہ بات نہیں مانی۔ میں ایسی جادُو کی چھڑی کی تلاش میں رہا جس سے میرا کام چُٹکی بجاتے ہی پورے مُلک میں پھیل جائے۔
میری کیفیت یہ تھی-
جس نے ذرا سا اشارہ کیا
بہُت دُور تک اُس کا پیچھا کیا
اس تلاش میں سب سے پہلے میں ایکس سروس مین سوسائٹی تک پہنچ گیا۔ یہ سابقہ فوجی جوانوں اور افسروں کی تنظیم تھی جو پورے مُلک میں پھیلی ہوئی تھی۔ اس کے ممبران انتظامی صلاحیتیں رکھتے تھے، ڈسپلن سے کام کرنے کے تربیت رکھتے تھے اور قابل اعتماد تھے۔ سوسائٹی کے صدر ایک جنرل صاحب تھے اُنہوں نے ممبران کے اگلے اجلاس میں مُجھے بات کرنے کے لئے بُلا لیا۔ میں نے بات شروع ہی کی تھی کہ حاضرین میں سے ایک صاحب نے میرے خلاف دھُواں دار تقریر شروع کردی ۔ اُن کے خیال میں میں امریکی ایجنٹ تھا۔ اُنہوں نے مُجھے کہا کہ تم سٹیج سے اُتر جاؤ۔ جنرل صاحب نے کہا کہ آپ تقریر جاری رکھیں۔ میں نے تقریر ختم کی تو سامعین کو سمجھ آگئی کہ میں امریکی ایجنٹ نہیں اُن کے ضمیر کا ایجنٹ ہوں جس کے پاس کُچھ ایسے اوزار ہیں جو اُن کے کام آسکتے ہیں ۔سب نے کھڑے ہو کر تالیاں بجائیں۔ پھر میں نے دوسری غلطی کی ۔ ڈاکٹر اختر حمید خان کہتے تھے جو بھی ہمارا کام سمجھنا چاہے وہ اپنے پیسے خرچ کر کے ہمارا کام دیکھنے آئے۔ اگر وہ اپنے پیسے خرچ نہیں کرتے تو اُنہیں آپ کے کام میں دلچسپی نہیں ہے۔ میں نے جلد بازی کی اور سروس مین سوسائٹی کے چار رُکنی وفد کو کراچی میں اورنگی پائلٹ پراجیکٹ دیکھنے کے لئے گرانٹ دے دی۔ ڈاکٹر صاحب کا کہنا تھا کہ جب پہلا قدم گرانٹ سے ہو تو لوگ ہر قدم پر گرانٹ مانگتے ہیں ۔ اسی لئے ڈونرز کے سب پروگرام ناکام ہوتے ہیں ۔ اُن کی دانش میرے جذبے پر بھاری تھی اس لئے اس تمام کوشش کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔
لیکن میری بے چینی ختم نہیں ہوئی ۔ میرے دوست رُخام خان نے پاسبان کے رہنما محمد علی دُرانی اور اُن کے دوستوں سے میرا رابطہ کروایا اور کہا کہ یہ بہت بڑا نیٹ ورک ہے اگر انہیں تمہاری بات سمجھ آ گئی تو کام بہت پھیلے گا۔ محمد علی دُرانی کو میرے خیالات اسقدر پسند آئے کہ اُنہوں نے مُجھے عمران خان سے ملوانے کا فیصلہ کیا۔ کچھ دنوں بعد میرے دوست نسیم الرحمان، عمران خان کے ساتھ دُرانی صاحب کیُ اسلام آباد میں واقع قیام گاہ میں آئے اور ہماری تفصیلیُ گفتگو ہوئی ۔ عمران خان کو پہلی مُلاقات میں ہی میری بات سمجھُ آ گئی اور اُنہوں نےنیشنل ایجوکیشن موومنٹ قائم کر کے مُجھے اُس کا چیف ایگزیکٹو مقرر کر دیا۔ شوکت خانم ہسپتال میں پریس کانفرنس ہوئی اور دُنیا جہان کا میڈیا وہاں آگیا۔ یُو این ڈی پی کو جب میرے اس معاملے کی خبر ملی تو اُنہوں نے میری جواب طلبی کی اور نوکری سے فارغ کرنے کا نوٹس دے دیا۔ یہ بے نظیر کی حکومت کا دور تھا۔ یُو این ڈی پی میں میرے انچارج افسر نے کہا تُم ہماری دُکان بند کروا دو گے۔ دوسری طرف پوری دُنیا سے عمران خان کو اس کام میں تعاون کے لئے خطوط آنا شروع ہو گئے۔ لیکن عمران خان کے پاس بڑا کام کرنے سے پہلے چھوٹے پیمانے پر تجربہ کرنے کے لئے وقت نہیں تھا۔ وہ بہت بڑا کام کرنے کے اہل تھے اس میں کوئی شُبہ نہیں۔ لیکن ڈاکٹر اختر حمید خان شیخ سعدی کا حوالہ دیتے تھے کہ دیوار کی پہلی اینٹ ٹہڑی رکھی جائے تو پوری دیوار ٹہڑی ہو گی – لیکن اُن کے لوگ بہُت سے ایسے لوگ تھے جن کے لئے ٹہڑے اور سیدھے کا فرق اہم نہیں تھا۔وہ اُنہیں سیاست میں لانا چاہتے تھے۔ اس لئے ہمارے راستے الگ ہو گئے۔ اُن لوگوں نے عمران خان کو اس مُغالطے میں مُبتلا کیا کہ حکومت آ جائے تو ہر کام ٹھیک ہو جائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ حکومت لوگوں کے سر پر چلتی ہے لوگ حکومت کے سر پر نہیں چلتے۔
عمران خان سے وابستگی ختم ہونے پر میں نے مختلف طرح کے نیٹ ورکس کے ساتھ چھوٹے پیمانے پر تجرباتی کام کرنے کا سوچا-اُن میں سُپر مارکیٹ میں واقع جامع قمر الاسلام ، اور بلوچستان کے مری قبیلے کی نوجوانوں کی تنظیم مری انوائرنمنٹ ڈیولپمنٹ ایسوسی ایشن جو اسد رحمان نے بنائی تھی شامل تھے۔ مری علاقے کے مقامی سردار وڈیرہ ہزار خان بجرانی کے ساتھ دس گیارہ بلوچ عمائدین میرے دفتر میں آئے۔وہ اپنے نوجوانوں کو مرکزی دھارے میں لانا چاہتے تھے۔ عمر اصغر خان نے اپنی تنظیم سنگی کے تجربہ کار کارکن تاج کے ذریعے اُن کی تربیت کا انتظام کیا۔ ان دو تنظیموں کو گرانٹ دینے کی بھر پُور مزاحمت ہوئی لیکن مُجھے گرانٹ دینے والی کمیٹی میں کُچھ زوردار حامی مل گئے ۔اُس کے بعد میں نے دو گرانٹیں گولڑہ شریف میں ماحولیاتی کام کے لئے منظور کرائیں اور عمر اصغر خان نے بطور وزیر ماحولیات اور یُو این کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل زیفرین ڈیابرےنے پاکستان آمد پر ان پراجیکٹس کا کام دیکھا۔عمر اصغر خان نے گولڑہ شریف میں سڑک کی مُرمت کا حُکم بھی دیا اور اس کا افتتاح، بھی کیا۔ فوج کے بارے میں میری رائے ضیاالحق صاحب کے جانے کے بعد تبدیل ہونا شروع ہو گئی ۔ اُس میں ائر مارشل اصغر خان اور طارق صدیقی کی دانشمندانہ سوچ کا بہت دخل تھا۔اُن دونوں حضرات کا کہنا تھا کہ پاکستانی فوج ہماری اپنی فوج ہے اور ہما رویہ بھی فوج کے بارے میں اپنوں جیسا ہونا چاہیے بھلے کتنے بھی اختلافات ہوں ۔فوج پاکستان کے لوگوں کی قوت پہ قائم ہے۔ ریاست پر کمزور لمحے آ سکتے ہیں لیکن پاکستان کے لوگ اور سول سوسائٹی ایک نا قابل تسخیر قوت ہیں۔ ہم سب ایک ہیں اور اکٹھے ہو کر ہی ہم پاکستان کو بدل سکتے ہیں۔ لڑ جھگڑ کر نہیں۔ عمران خان بھی مُلک کو اسی صورت میں بدل سکتے ہیں جب اُن کے پاس گلی محلے کو بدلنے کا علم ہو۔ یہ کام نعروں اور جلوسوں سے نہیں دو جمع دو چار کرنے کے طریقے کو سمجھنے سے ہو سکتا ہے۔ اُن کا دل صحیح جگہ پر ہے۔ اُن کے دماغ کو اُن کے دل کی رہنمائی کے گُر سیکھنے کی ضرورت ہے۔ وہ گُر شاید اُن لوگوں کو معلوم ہیں جن سے وہ بات کرنے کو تیار نہیں۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں