جنگ 1965 سترہ دن جاری رہی اور جنگ کے آخر میں جنرل ایوب خان نے ہندوستان سے فائر بندی کا اعلان کر دیا اور سوویت یونین کے شہر ماسکو میں امن مذاکرات پر آمادہ ہو گئے۔ مذاکرات میں اُن کے جوان ،سیماب صفت ،وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھُٹو بھی شامل تھے۔ اُن کے خیال میں یہ سمجھوتہ کمزور شرائط پر کیا گیا تھا اور وہ معاہدہ تاشقند سے نالاں تھے۔ یہ ناراضگی بھٹو صاحب کی حکومت سے رخصتی پر منتج ہوئی۔ وہ راولپنڈی سے بذریعہ ٹرین کراچی کے لئے روانہ ہوئے- لا ہورسٹیشن پر اُنہوں نے تقریر کی تو اُن کی آنکھیں پُر نم ہو گئیں۔ عوام میں اُن کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ اُن کے کسی مداح نے اُن کا رومال جس سے اُنہوں نے آنسو پونچھے تھے ایک لاکھ روپے میں خرید لیا۔
حبیب جالب نے اُن کے بارے میں لکھا
جنگ کو تیز کر ذوالفقار علی
منتظر ہے تری دیس کی ہر گلی
شام کو صُبح دے صُبح کو نُور دے
لوگ بیتاب ہیں اپنا منشور دے
مغربی پاکستان اُن کے سحر میں مُبتلا تھا۔ میں بھی اُن سحر زدہ نوجوانوں میں سے ایک تھا ۔ میں دسویں جماعت کا امتحان دے کر فارغ ہوا تھا۔میں نے بھُٹو صاحب کو اُن کے کلفٹن کے پتے پر ایک خط لکھا اور اُن کی ملتان آمد پر اُن سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔ اُنہوں نے کمال مہربانی سے کام لیتے ہوئے نہ صرف میرے خط کا اُردو میں جواب دیا جس کے نیچے انگریزی میں اُن کے دستخط تھے بلکہ اپنے آٹو گراف کے ساتھ اپنی تصویر بھی بھیجی۔ اور مُجھے کہا کہ جب وہ ملتان آئیں تو میں اُنہیں ملوں-
بھُٹو صاحب کی مُلاقات سے پہلے مُجھے ایک اور دلچسپ مُلاقات کرنا
> پڑی۔ جون کی شدید گرمی میں دن کے گیارہ بجے کے قریب میرے گھر کی گھنٹی بجی۔ میں نے دروازہ کھولا تو پسینے میں شرابور ایک سائیکل سوار موجود تھا۔ میں نے اُس کا نام پُوچھا۔ اُس نے کہا افتخار۔ میں نے بیٹھک کا دروازہ کھولا۔ اُسے بٹھایا۔ پنکھا چلایا۔ شربت پلایا اور آنے کی وجہ پوچھی۔اُس نے چھوٹتے ہی کہا تم نے یہ کیا خط بازی شروع کر رکھی ہے۔میں نے پُوچھا کونسی خط بازی۔ تُم نے ذوالفقار علی بھُٹو کو خط لکھا ہے۔میں نے کہا تم کون ہو- اُس نے کہا میں سی آئ ڈی سے ہوں۔اُن دنوں سیاسی کارکن بہت کم ہوتے تھے۔ اس لئے سی آئ ڈی والوں کے پاس ایک سولہ سالہ لڑکے کو ہراساں کرنے کا وقت بھی تھا۔تھوڑی دیر ہم جھکتے رہے پھر مُجھے پند و نصیحت کرنے کے بعد افتخار نے پیڈل لگایا اور چلا گیا۔
اُس کے بعد بھُٹو صاحب مُلتان آئے اور اُنہوں نے قاسم باغ میں ایک بڑا جلسہ کیا۔ رسُول بخش تالپور اُن کے ساتھ تھے۔ جلسہ میں ایک مقامی وڈیرے کے چمچے نے خنجر سے اُن پر وار کرنے کی کوششش کی ۔ کُچھ طالب علم بیچ میں آگئے اور حملہ آور بھاگ گیا۔ ایک آدھ دن میں بھٹو صاحب ایک فوکس ویگن کار میں مُلتان سے ساہیوال کی جانب روانہ ہوئے۔ ایوب خان کے تابع دار ایک مقامی وڈیرے نے اُن کی گاڑی پر حملہ کروایا۔ گاڑی کے ٹائر پھاڑ دئے۔ میر تالپور باہر نکلے۔ حملہ آور بھاگ گئے ۔بعد میں انہی وڈیروں کی ٹولی پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئی ۔ بھٹو صاحب ملتان انتخابی مہم کے سلسلے میں آئے تو انہیں تاج محمد لنگاہ کے حلقے میں جلسے کے لئے نہیں جانے دیا۔ یہ کہ کہ کر لنگاہ صاحب کے مد مُقابل ممتاز دولتانہ جیت جائیں گے۔ اُن سے تعلقات خراب نہ کریں۔ اور اُنہوں نے پیپلز پارٹی کو اپنی آغوش میں لے لیا۔
انتخابات 1970 میں بھٹو صاحب نے چھ حلقوں سے کاغذات داخل کئے ۔ اُن میں سے ایک حلقہ مُلتان کا تھا۔ اُن کی انتخابی مہم میں کام کرنے والے نوجوانوں کی ٹیم میں میں بھی شامل تھا۔بھُٹو صاحب ملتان کی نشست جیت گئے تو عوام کا شکریہ ادا کرنے مُلتان آئے۔ ٹرک پر اُن کے جلوس نے مُلتان شہر کا چکر لگایا۔ اُس ٹرک کے سامنے کی چھت پر بھُٹو صاحب، ملک غلام مُصطفے کھر ، تاج لنگاہ،اور طالب علم رہنما ناصر عباس تھے۔ اور دیواروں اورعقبی حصے میں ہم سب طالب علم تھے۔ بھُٹو صاحب نے تاج لنگاہ کو خاص طور پر اپنے ساتھ کھڑا کیا تھا۔ وہ اُن کی دلجوئی کرنا چاہتے تھے۔ اُنہیں بہت دُکھ تھا کہ اُنہوں نے لنگاہ صاحب کے حلقے میں جلسہ نہیں کیا تھا۔ وہ صرف 2000 ووٹوں سے ہارے تھے۔ناصر کا کام نعرے لگوانا تھا۔ہم نے اُسے پہلے سے بتا رکھا تھا کہ تم نے ایک نعرہ بار بار لگوانا ہے۔ چھین لو جاگیریں، جاگیریں چھین لو۔ بھُٹو صاحب جاگیرداروں کو اپنی پارٹی سے بھگانا نہیں چاہتے تھے۔ اُنہوں نے ناصر کو یہ نعرہ لگانے سے منع کر دیا۔ ہم نے ٹرک کے اندر سے نعرے لگوائے ۔ اُنہوں نے پھر منع کیااور آخر کار ہمیں ٹرک سے اُترنا پڑا۔
جب پیپلز پارٹی کی حکومت آ گئی تو جاگیردار قیادت پنجاب میں سب سے بڑے انعام کی توقع رکھتی تھی۔ اب پچھلا ریکارڈ صاف کرنا ضروری تھا۔ بھٹو صاحب سے ملاقات میں جاگیردار گروپ کے سربراہ نے کہا بھُٹو صاحب مُجھ پر الزام لگایا جاتا ہے کہ آپ کی گاڑی پر ُ حملہ میں نے کرایا تھا۔ ایسا نہیں ہے۔ پھر اُنہوں نے اپنے ہی گروپ کے ایک ممبر صوبائی اسمبلی کی طرف اشارہ کیا کہ یہ ان کا کام ہے۔ بھُٹو صاحب نہایت ذہین اور منجھے ہوئے سیاستدان تھے۔ وہ مُسکرائے اور شفقت سے کہا ہمیں آپ جیسے بہادر لوگوں کی ضرورت ہے۔ اس جملے میں بہت سے معنی پوشیدہ تھے۔اہل نظر خود نتیجے نکال سکتے ہیں۔
مشرقی پاکستان اور بلوچستان میں بھُٹو صاحب نے فوج کشی کی حمایت کی میں اُس کے حق میں نہیں تھا۔ پھر کراچی میں جب سائٹ کے مزدوروں کے خلاف اُنہوں نے ایکشن کیا اور کہا کہ گلیوں کی طاقت کا مقابلہ ریاست کی طاقت سے کیا جائے گا تو میں نے اور میرے دوستوں نے اپوزیشن میں شامل ہونے کا فیصلہ کر لیا۔لیکن جب اُن کا عدالتی قتل ہوا تو خاموش بیٹھنا مشکل ہو گیا۔ضیاالحق کے زمانے میں 1979 میں جب بھٹو صاحب کو پھانسی کی سزا ہوئی تو سب سے پہلا مقدمہ بغاوت جن تین لوگوں پر درج ہوا اُن میں سے ایک میں تھا۔مُجھے سمری ملٹری کورٹ میں طلب کیا گیا۔ مُجھے شاہی قلعے کی مہمانداری حاصل کرنے کا شرف حاصل نہیں ہو سکا۔ کیونکہ مُجھے پناہ دینے والے بہت سے بہادر اور گمنام شہری تھے۔میں نے کینیڈا میں ایک یونیورسٹی میں داخلے کی درخواست دی ۔ مُجھے وظیفہ مل گیا لیکن جہاز کا ٹکٹ خریدنے کے پیسے نہیں تھے۔ سویڈن میں مقیم میرے ایک دوست نے ٹکٹ خرید دیا۔ خط بازی سے شروع ہونے والا معاملہ سمری ملٹری کورٹ میں مقدمے بازی پر ختم ہوا۔ اُس کے بعد راوی مُسلسل سفر کے دن بیان کرتا ہے۔۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں