حق، نا حق، ممتاز دانشور فیاض باقر کی سلسہ وار تحریر، مولانا مودودی کے ساتھ ایک شام

میرے والد کی وفات کے بعد جب مولانا مودودی مُلتان تشریف لائے تو شام کے کھانے پر مُجھے یاد فرمایا۔ مولانا کا قیام امیر جماعت چودھری نذیر احمد کے گھر میں تھا جو ہمارے گھر کے قریب رہتے تھے۔ میں اُس وقت پندرہ سولہ برس کا تھا۔شام کے کھانے سے فارغ ہوا تو دروازے پر دستک ہوئی ۔ چودھری صاحب کے صاحبزادے عبدالرحمان دروازے پر موجود تھے۔ کہا مولانا نے آپ کو یاد فرمایا ہے۔ میں نے سوالیہ انداز سے عبدالرحمان کی طرف دیکھا تو انہوں نے کہا کہ مولانا نے فرمایا ہے کہ کھانے پر محمد باقر خان موجود نہیں ہیں تو اُن کے صاحبزادے کو بُلا لیں۔

میں نے کہا میں تو کھانا کھا چُکا ہوں۔ کہا اب دوبارہ کھانا پڑے گا۔ انکار کی گُنجائش نہیں تھی میں عبدالرحمان کے ہمراہ چل دیا۔
مولانا کے لباس میں نفاست، مزاج میں لطافت اور شخصیت میں وقار تھا۔ اُن کے ساتھ مُلتان جماعت کے چند سر کردہ حضرات بھی بیٹھے تھے۔ مولانا کی طبیعت میں شفقت کی وجہ سے مُجھے جھجک تو محسوس نہیں ہوئی لیکن اتنے بزرگوں کو دیکھ کر میں شرمیلے طریقے سے کمرے میں داخل ہوا اور سلام کر کے بیٹھ گیا۔اُنہوں نے میرا اور سب گھر والوں کا حال پوچھا۔ کُچھ دیر اجتماعی گفتگو ہوئی اور پھر کھانا چُن دیا گیا۔ قورمہ اور چپاتی تھی۔ میں نے شوربے میں لُقمے ڈبو کے کھانا شروع کیا تو ابا کے ایک دوست بولے۔ بوٹیاں کیوں نہیں کھاتے۔ میں نے آئیں بائیں شائیں کی تو اُنہوں نے کہا جماعت اسلامی میں دو افراد گوشت کھانے اور بھر پُور قہقہ لگانے کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔ محمد باقر خان اور گلزار احمد مظاہری۔ گوشت کھاؤ۔ آپ یقین جانیں اُن کی بات کا پتہ نہیں کیا اثر ہوا میں نے اُسی وقت نہایت رغبت سے گوشت کھانا شروع کر دیا۔

مولانا نے فرمایا کہ مُجھے تو گوشت کھانے کا ہی نہیں ہڈیاں چبانے کا بھی بہُت شوق ہے۔ پھر فرمایا کہ میں جوانی میں شکار کا بہت شوقین تھا۔ حیدر آباد میں ایک دفعہ شکار کے بعد ریسٹ ہاؤس میں کھانا لگا تو کُتے بھی ہڈیوں کے انتظار میں اکٹھے ہو گئے۔میں نے کھانے کے بعد ہڈی چبانا شروع کی اور کٹاخ کی آواز آئی تو کُتوں نے چونک کر میری طرف دیکھا۔ کہ یہ کام تو ہمارے کرنے کا تھا۔ آپ نے وہ بھی ہمیں نہ کرنے دیا۔مولانا میں کمال کی حس مزاح تھی۔ اور وہ نہایت لطافت سے اس کا اظہار کرتے تھے۔اپنے اس دورے کے دوران انہوں نے قاسم باغ میں ایک جلسے سے خطاب کیا۔میں بھی جلسہ سُننے گیا-ایوب خان کے فیلڈ مارشل بننے کا ذکر ہوا۔کہ اُنہوں نے سابقہ تاریخ میں اپنے آپ کو فیلڈ مارشل مقرر کر دیا ہے۔ مولانا نے کہا یہ ایسے ہے جیسے کوئی کہے کہ حضرات میں آج سے چند ماہ قبل فوت ہو چُکا ہوں۔

مولانا کے علمی مرتبے اور باکمال شخصیت کے باوجود میں سوچتا ہوں کہ اُن کی سیاست کو پذیرائی کیوں نہیں ملی۔ وہ سر سید احمد خان اور اقبال کی عقلی دلیل پر مبنی جدیدعلمی روایت کے پیرو کار تھے۔ دنیا بھر میں اسلامی فکر پر اُن کے کام کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ میرے خیال ہے کہ اُس کی وجہ یہ ہے کہ اشتراکیوں کی طرح وہ بھی جمہوری سیاست کی بجائے نظریاتی سیاست پر یقین رکھتے تھے۔نظریاتی سیاست اجلے اور بے داغ خوابوں پر مبنی ہوتی ہے۔ لیکن جمہوری سیاست کا بڑا چیلنج اُجلے اور میلے دونوں دھاروں کے درمیان راستہ نکالنا ہوتا ہے۔ اور قدم بہ قدم دھیرے دھیرے تبدیلی لانی ہوتی ہے۔ کُچھ لینے اور کُچھ دینے کا طریقہ اختیار کرنا ہوتا ہے۔ آسمان سے زمین پر آنا پڑتا ہے۔ جمہوری سیاست کا اصول یہ ہے کہ اپنے لئے خواہ سخت معیار قائم کریں لیکن لوگوں کو اُن کی کمزوریوں اور کمیوں کے ساتھ قبُول کریں۔ اس اصُول کو صحیح طریقے سے غالب نے بیان کیا ہے۔

حد چاہئے سزا میں عقُوبت کے واسطے
آخر گُناہ گار ہوں کافر نہیں ہوں میں

مولانا بھی چشتیہ سلسلے کے بزُرگ مودود چشتی کی اولاد میں سے تھے۔لیکن خانقاہی روایت میں کثرت میں وحدت دیکھنے کا زاویہ اُن کی عقلی استدلال پر مبنی سیاسی سوچ سے لگا نہیں کھاتا تھا۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں