حالیہ سیلاب کی قیامت خیز تباہ کاریوں نے میرے دل میں محترمہ فاطمہ جناح کی یاد تازہ کر دی ہے۔1964 میں جب ایوب خان کے خلاف انتخابی مُہم میں محترمہ ملتان تشریف لائیں تو ملتان کے بے باک سرائیکی شاعر عاشق حُسین ُحسینی نے محبت بھری نظم پڑھی تھی
میڈے مُلک دے ڈہ کروڑیں دی اماں
غریبیں دی اماں امیریں دی اماں
پورے مُلتان نے مُحبت اور عقیدت سے محترمہ کی راہ میں اپنی آنکھیں بچھا دیں۔ محترمہ کے جلسے سے پہلے پورے ملتان میں میرے دوستوں اسلم خاکی، عبدالقدیر اور کُچھ اور ساتھیوں نے دیواروں پر شمع جمہوریت زندہ باد اور آمریت مُردہ باد کے نعرے سجا دیئے۔ اُنہوں نے مُجھے بھی اس کار خیر میں شامل ہونے کی دعوت دی۔ ہم سب لوگ اُس زمانے میں آٹھویں جماعت میں پڑھتے تھے۔ ہماری حرکتیں دیکھ کر ہمیں کُچھ “سیانے” لوگوں نے خوف دلانے کی کوشش کی لیکن دل کو اُس وقت تک خوف سے آگاہی نہیں ہوئی تھی۔کُچھ نہیں تُم آگ سے کھیل رہے ہو۔ ہمارے ایک اُستاد مُرید حُسین راہی نے ایک دفعہ مولانا مودودی کی گرفتاری پر اقبال کا کہا اک شعر سُنایا تھا۔
آگ ہے اولاد ابراہیم ہے نمرود ہے
پھر کسی کو کیا کسی کا امتحاں مقصود ہے
اس کے بعد آگ سے جھُلسنے کا ڈر جاتا رہا۔محترمہ کے مُلتان آنے سے پہلے فضا کی تپش میں اضافہ ہو گیا۔ شہر کے مشاعروں اور ادبی نشستوں میں بھی اہل دانش نے کمال جذبے اور جُرات کا مظاہرہ کیا۔کیپٹن نثار جاذب نے کہا
کُچھ نہ پوچھو کہ اس شہر میں زندگی
کتنی ویران ہے کتنی سُنسان ہے
کوئی سُن لے گا تو جُرم کہلائے گا
چُپ رہو چُپ رہو وقت ناساز ہے
عجیب عالم ہے تب سے اب تک وقت ناساز ہی چلا آرہا ہے۔ خلیق مُلتانی نے ایک گہرا وار کیا۔ اور شہر بھر میں جھُوم جھُوم کر یہ نظم پڑھی۔
سب چھوڑ دے دھندے تخریبی اب کام کوئی تعمیری کر
کُچھ اور نہیں تو یار مرے اس دور میں چمچے گیری کر
تو چمچہ جب بن جائے گا ہر کام ترا چل جائے گا
اک آدھ منسٹر سے تیری جب یاری ہو جائے گی
کیا اُس کو شرم نہ آئیگی کیا تیرے کام نہ آئے گا
ایوب خان کا خیال تھا بنیادی جمہوریت کے اسی ہزار لوگوں کے ووٹوں کو۔ قابو کر کے وہ انتخاب “فتح” کر لے گا۔ اُس نے بازی جیتنے کے لئے دو جعلی صدارتی اُمید وار بھی میدان میں کھڑے کئے کمال اور بشیر کے نام کے۔ جنہیں شاید اُن کے اہل خانہ کے علاوہ اور کوئی نہیں جانتا تھا۔ پھر مذہب کا سہارا لیا اور فتوے لیئے کہ عورت سربراہ مملکت نہیں ہو سکتی۔ مولانا مودودی نے فتوا دیا کہ قرآن میں ملکہ صبا کا حضرت سُلیمان سے مُلاقات کا ذکر ہے۔ اس لئے عورت سربراہ مملکت بن سکتی ہے۔
خیر محترمہ مُلتان تشریف لے آئیں۔ قاسم باغ سٹیڈیم میں اُن کا جلسہ ہُوا۔ حبیب جالب خاموشی سے کسی گہری سوچ میں ڈوبے ہوئے اُن کے ساتھ بیٹھے تھے۔وہ مائک کے سامنے آئے اور کہا حضرات ایوب خان نے میری شاعری سے ناراض ہو کر مُجھے جیل میں بند کر دیا تھا اس لئے اب میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں ایوب خان کے خلاف شاعری نہیں کروں گا۔ پھر انہوں نے اپنی نظم پڑھی جو مُجھے آج دن تک پوری یاد ہے۔ نظم تھی صدر ایوب زندہ باد۔ چند شعر حاضر ہیں۔
بیس گھرانے ہیں آباد اور کروڑوں ہیں نا شاد
صدر ایوب زندہ باد
آج بھی ہم پر جاری ہے کالی صدیوں کی بیداد
صدر ایوب زندہ باد
عام ہوئ غنڈہ گردی، چُپ ہیں سپاہی با وردی
مُلک کے دُشمن کہلاتے ہیں جو ہم کرتے ہیں فریاد
صدر ایوب زندہ باد
حبیب جالب کمال ترنُم سے گاتے تھے۔ کئی دن پورا شہر یہی نظم گاتا رہا۔
سب سے آخر میں محترمہ خطاب کے لئے آئیں ۔اُن کی آواز میں بلا کی کڑک تھی ۔ اُنہوں نے بغیر لگی لپٹی رکھے تقریر کے دوران گرج کر کہا ایوب خان تم غدار ہو۔بس یہی ایک فقرہ آج تک مُجھے یاد ہے۔ وہ واقعی مادر ملت تھیں۔ اُنہوں نے اپنی مُحبت کی چھاؤں سے لوگوں کے دلوں سے خوف کے سائے دور کر دیے اور ایک نئی دُنیا کی اُمید پیدا کردی -ہم سب نے مل کر یہ دُنیا بنانی ہے۔۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں