حق ناحق، ممتاز دانشور فیاض باقر کی سلسلہ وار تحریر، پُلس مقابلے

ضیاالحق صاحب کے زمانے میں ایک دفعہ حالت مفروری میں میں بس پر سفر کر رہا تھا۔ بس پر ایک شخص سوار ہوا جو عام طور پر مال روڈ پر حالت دیوانگی میں گھُوما کرتا تھا۔وہ بعض اوقات سڑکوں اور دیواروں پر اپنے افکار اور فن کا اظہار بھی کیا کرتا تھا۔

 

اُس نے بس میں داخل ہوتے ہی بلا جھجک تقریر شروع کردی۔ کہا، حضرات کل ضیاالحق صاحب نے بیان دیا ہے کہ پوری قوم کو ہاکی ٹیم سے سیکھنا چاہئے۔ میں اُن کی بات سے پورا اتفاق کرتا ہوں۔ میرے خیال میں پوری قوم کو بارہ بارہ کی ٹیموں میں تقسیم کر دیا جائے۔ بس میں بھی سواریوں، کنڈکٹر اور ڈرائیور کی ٹیمیں بنا دی جائیں۔ جونہی آخری سٹاپ پر بس رُکے ڈرائیور اور کنڈکٹر میچ کھیلنا شرُوع کر دیں۔ گھر میں میاں بیوی بھی ایک ٹیم کے طور پر مُقابلہ کریں اور بیوی چُولہے میں چمٹے کی جگہ ہاکی استعمال کرے۔ بعد میں ہاکی سے انگارہ واپس رکھنے کا کام لیا جا سکتا ہے۔ اگر پولیس اور عوام میں جھڑپ ہو تو اخبار میں خبر لگائی جائے پولیس اور عوام میں ہاکی میچ ، ایک ایک گول برابر۔پولیس کے ساتھ اسطرح کے بہت سے ہاکی میچ کھیلنے کا مُجھے بھی اعزاز حاصل ہوا۔

 

کُچھ دوستانہ تھے کُچھ ٹسٹ میچ، کُچھ واک اوور، کُچھ ڈرا-لاہور کے ہو شمند دیوانے کی تقریر کے چند ماہ بعد میں رات کو راولپنڈی میں مری روڈ پر جا رہا تھا۔ ایک شخص کی کار بند ہو گئی وہ گاڑی سے باہر نکلا۔ شاید نشے میں چُور تھا۔ کُچھ لوگ دھکا لگا کر اُس کی مدد کر رہے تھے۔ اتنے میں کُچھ پولیس والے بھی آگئے۔ گاڑی کے مالک نے بلند آواز میں کہا ضیاالحق کا کوئی چمچہ میری گاڑی کو ہاتھ نہ لگائے۔ سب لوگ اُس کی منت کر رہے تھے بھائی اپنی اور ہماری جان بچاؤ۔ ضیا الحق کا احتساب بعد میں کرنا۔ ابھی گھر جاؤ۔ ہم نے بہت مُشکل سے اُسے یقین دلایا کہ ہم اُس کے ہم خیال ہیں۔اُسے ڈرائیونگ سیٹ پر بٹھایا اور دھکا لگا کے گاڑی سٹارٹ کر دی۔ اسی مری روڈ پر سال دو کے بعد ضیاءالحق صاحب نے دن کے وقت سائیکل چلا کر پوری قوم کو سائیکل چلانے کی تحریک میں شامل ہونے کی دعوت دی۔ راولپنڈی اسلام آباد کی تمام پولیس کو بُلا لیا۔ شاید اُنہیں پولیس کے جمگھٹے میں روحانی سکون ملتا تھا۔بدقسمتی سے اُس سے ایک دن پہلے ایک مسلح گروہ نے خانہ کعبہ پر حملہ کر دیا۔

 

امریکہ نے اس کا الزام ایران پر ڈالا اور ایران نے امریکہ پر۔ قائد اعظم یونیورسٹی کے طالب علموں نے ایران پر یقین کیا اور امریکی سفارت خانے پر ہلہ بول دیا۔ پولیس صدر مملکت کی سائیکل سواری کی حفاظت کر رہی تھی-طالب علم میچ کے لئے میدان میں آئے تو پولیس کی ٹیم غائب تھی۔ طلبا کو تو واک اوور مل گیا اور گول پولیس کی بجائے صدر مملکت کے کھاتے میں چلا گیا۔ بعد میں دریافت ہوا کہ شرفا کاہیلی کاپٹر سے سفر کرنا بہتر ہے۔ اس کے موسمیاتی اثرات منفی ہیں مگر سیاسی اثرات مُثبت ہیں۔اب اسلام آباد کی سڑکوں پر صرف کچرا اُٹھانے والے سائیکل چلاتے ہیں۔پولیس کے ناکے دوستانہ میچ کی شکل بھی اختیار کر سکتے ہیں۔ میں ایک دفعہ اسلام آباد میں اپنے گھر سے کچھ خواتین مہمانوں کو اُن کے گھر چھوڑنے جا رہا تھا ناکے پر پولیس کی ایک نفری موجود تھی۔ اسلام آباد میں پولیس اسطرح پرچُون کا کاروبار نہیں کرتی ۔ میں نے جیپ روکی تو انہوں نے کاغذات طلب کئے۔ میں نے معذوری ظاہر کی تو انہوں نے لائسنس مانگا وہ بھی نہیں تھا۔ میں نے اپنی لاچاری ظاہر کرتے ہوئے کہا میرے پاس تو بٹوہ بھی نہیں ہے۔

 

اُنہوں نے فراخدلی سے یہ خلاف ورزیاں معاف کر دیں اس وعدے پر کہ میں واپسی پر حاضری دوں گا۔ واپسی پر میں نے گاڑی روکی اور اپنا سابقہ بیان دُہرا کر سنتری بادشاہ سے پُوچھا اب میرے لئے کیا حُکم ہے۔ وہ اپنے آفیسر کو بُلا لایا۔ اُنہوں نے پوُچھا آپکی گاڑی کہاں ہے۔ مُجھے اشارہ کیا کہ اس میں بیٹھ جائیں۔ میں سٹیئرنگ پر بیٹھ گیا تو میرے قریب آئے اور کہا یہ بیوقوف ہے آپ اپنے گھر جائیں۔ایک دفعہ میں ایک ٹیکسی پر کلب روڈ سے اپنے گھر آرہا تھا۔ اسلام آباد کلب سے کُچھ پہلے ایک ناکے پر پولیس والوں نے ٹیکسی کو روک کر کاغذات طلب کئے تو ڈرائیور نے پُوچھا کونسے کاغذات؟ دوبارہ حُکم ہوا کاغذات دکھاؤ دوبارہ جواب ملا کونسے کاغذات۔ اُس کے بعد ٹیکسی ڈرائیور نے ہنسنا شروع کر دیا۔پھر اُس نے میری طرف دیکھا اور کہا جو کاغذ تم مانگ رہے ہو وہ میرے پاس نہیں ہیں۔ میں نے ابھی اپنی گاڑی نکالی ہے۔ مُجھے یہاں کھڑے رکھو گے تو کھڑا رہوں گا۔ پولیس والے سمجھ گئے اور اُسے رُخصت دے دی۔ اسی طرح کا ایک معرکہ میرے ایک دوست نے بیان کیا جب وہ ماسکو سٹیٹ یونیورسٹی میں پڑھتا تھا- پولیس نے اُسے بئیر کی چند بوتلیں نوش کرنے کے بعد ایک دیوار کی بنیادوں کو سیراب کرنے کے الزام میں گرفتار کر لیا اور پولیس سٹیشن لے گئے۔

 

ڈھائی روبل جُرمانہ کیا۔ اُس نے پانچ روبل ادا کئے ۔باقی ڈھائی رُوبل کا اُن کے پاس بھان نہیں تھا اور بقایا واپس کرنے کو تیار نہیں تھے۔ میرے دوست نے اُن سے کہا فکر نہ کریں۔ آپ ڈھائی روبل پاس رکھیں میں ایک خلاف ورزی اور کر لوں گا۔ حساب برابر ہو جائے گا۔پولیس والے ذہین لوگوں کی قدر کرتے ہیں۔ چھُٹی مل گئی۔لیکن پولیس والوں کے دل میں بھی نرم گوشہ ہوتا ہے۔ آندھرا پردیش میں ایک تقریب میں کھانے کے دوران مُجھے پتہ چلا کہ میرے ساتھ میز پر جو صاحب طعام میں مشغول تھے وہ پولیس کے ایک شعبے کےصوبائی سربراہ تھے۔ میں نے پوچھا آپ کا تعلق حیدر آباد سے ہے۔ بولے نہیں میں کیرالہ سے ہوں۔ اُردو بہت اچھی بول رہے تھے۔ میں نے پوچھا کبھی پاکستان گئے ہیں۔ کہا نہیں سترہ سال پہلے میری بہن کی شادی کراچی میں ہوئی تھی لیکن ملنے نہیں جا سکا۔ کبھی فون پہ بات کرتے ہیں۔ نہیں۔ کیوں۔ پولیس میں جو ہوں۔ پولیس والے غمزدہ بھی ہوتے ہیں اور چھُپاتے بھی ہیں۔ ہم جیسے انسان ہی ہیں۔ میرے بچے جب بہت چھوٹے تھے تو ہم اُنہیں ریل کار پر راولپنڈی سے اسلام آباد لے گئے۔ وہ ڈبے میں مسلسل کود رہے تھے اور ادھر سے اُدھر بھاگ رہے تھے۔اتنے میں ایک پولیس والا گُزرا ۔ میری بیوی نے کہا۔ بھائی یہ باز نہیں آتے ذرا انہیں ڈراؤ دھمکاؤ۔ پولیس والے نے ہنسنا شرُوع کر دیا۔ بولا بچے ہیں انہیں کھیلنے دیں۔

 

امریکہ میں ایک دفعہ میں شدید برفباری کے دنوں میں آئیووا میں ایک دوست کے گھر ٹھہرا- اُس نے گھر میرے حوالے کیا اور کہا میں آدھی رات کو واپس آؤں گا۔ رات کو میں کسی وجہ سے باہر نکلا تو دروازہ پیچھے سے بند ہو گیا۔ سامنے ایک سفید فام بُڑھیا کا دروازہ کھٹکھٹایا وہ مُجھے دیکھ کر گھبرا گئی۔ میں نے کہا میں باہر رہا تو سردی میں ٹھٹھر کر مر جاؤں گا۔ تم پولیس کو فون کرو اور مُجھے اُن کے حوالے کردو۔ پولیس نے مُجھے پناہ دینے کی بجائے مجھ سے پناہ مانگنا شرُوع کردی۔ آخر یہ طے ہوا کہ وہ مالک مکان کو میری ضمانت دے دیں کہ میں چند گھنٹے وہاں ٹھہر سکوں۔ مُجھے اُس دن پتہ چلا کہ اٹ از اے فری کنٹری کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ کو سردی میں ٹھٹھرنے کی آزادی ہے۔ پناہ لینے کی نہیں۔، جس مُلک میں پولیس اور شہری مُسلسل ٹیسٹ میچ کھیلتے رہیں وہ پولیس سٹیٹ بن جاتا ہے۔ اگر دوستانہ میچ کی گُنجائش ہو تو وہ رفاہی ریاست بھی بن سکتا ہے۔ میراایک پختون دوست یونیورسٹی سے فارغ ہونے کے بعد پولیس سروس میں شامل ہو گیا۔ کئی سالوں بعد مُلاقات ہوئی تو اُس نے ایک دلچسپ تبصرہ کیا۔ کہنے لگا سرحد میں کوئی آدمی تھانے آئے اور آپ گلے نہ ملیں تو وہ آپ سے کبھی نہیں ملنے آئیگا۔ پنجاب میں اگر آپ کھڑے ہو کر کسی کو مل لیں تو لوگ کہتے ہیں ایس پی کمزور ہے۔ مطلب یہ ہے کہ میچ کا میدان دونوں کھلاڑی مل کر سجاتے ہیں۔آج کی نشست میں میں نے صرف دوستانہ میچوں کا ذکر کیا ہے ٹیسٹ میچوں کی کہانیاں تلخ ہیں کسی اور نشست میں بیان کروں گا۔۔۔۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں