حق ناحق، ممتاز دانشور فیاض باقر کی سلسلہ وار تحریر، میرے استاد اور سکول

میں کچی جماعت میں اقبال گرلز ہائی سکول ملتان میں داخل ہوا۔میری پہلی اُستانی کا نام بانو تھا۔ وہ ساڑی پہنتی تھیں۔ سر کے بالوں کا جُوڑا بناتی تھیں۔اُن کے بال میں چاندی اور سُرمئی رنگوں کی آمیزش تھی۔اُن سے مل کے دل کو ٹھنڈک آجاتی تھی۔ جو ابھی تک ویسے کی ویسی ہی ہے۔وہ سبق سُنتی تھیں لیکن ڈانٹتی نہیں تھیں۔سبق سُننے کے بعد مُجھے کھیلنے کی چھُٹی دے دیتی تھیں۔ ایک دن مُجھے پتہ چلا کہ میں پکی جماعت میں آگیا ہوں اور اب مُجھے لڑکوں کے پرائمری سکول کڑی افغاناں جانا ہو گا۔ یہ پٹھانوں کا محلہ تھا جہاں خاکوانی ، ترین اور دُرانی خاندان زیادہ تعداد میں آباد تھے۔ سکول کے ساتھ فوارہ چوک، سول ہسپتال، باغ لانگے خاں اور لانگے خان لائبریری تھی۔ ہسپتال کے صحن میں ایک افغان خاندان نے خیمہ لگایا ہوا تھا۔ لائبریری کے عقب میں ایک میدان تھا جہاں پہلی بار میں نے ریچھ کُتوں کی لڑائی دیکھی تھی۔ ریچھ بندھا ہوا تھا۔ کُتے اُسے بھنبھوڑ رہے تھے اور لوگ اس فکس میچ میں کُتوں کی جعلی بہادری اور ریچھ کی بے بسی پر تالیاں بجا رہے تھے۔ اس لڑائی میں ریچھ سے وہی سلوک ہوتا تھا جو بہت سے بہادر اور بے قصور لوگوں کے ساتھ میں نے عُمر بھر ہوتے دیکھا۔ اب شاید تماشبین کم ہو گئے ہیں اور تالیاں بجنی ختم ہو گئی ہیں۔

ہمارے پکی جماعت کے اُستاد ابراہیم صاحب تھے۔وہ کُرسی پر بیٹھتے تھے اور اُن کے سامنے پچاس ساٹھ طالب علم ٹاٹ پر بیٹھتے تھے۔ کُرسی کے ساتھ ایک لمبی چھڑی رکھی ہوتی تھی جس سے وہ تعلیم اور تربیت دونوں خدمات مہیا کرتے تھے۔ ہمارا کام بلیک بورڈ پر اُن کی لکھائ کی نقل کرنا اور قاعدے میں لکھے لفظوں کی اُن کی طرف سے کی گئی ادائیگی کو دُہرانا تھا۔میرے پھُپھا سکول میں اُستاد تھے اس لئے چھڑی کی تواضع سے میں محروم رہا۔ لیکن سکول کے بعد اگر پھُپھا مُجھے گھر میں نہ پڑھاتے تو میں پکی جماعت میں ہی سکُول چھوڑ کر بھاگ جاتا۔ میں نے گھر میں پہاڑے سرائیکی میں سیکھے تھے اور سکول میں میں اس کا اُردو ترجمہ نہیں کر سکتا تھا۔ اس لئے مُجھے ابراہیم صاحب سے کافی فاصلے پر رہنا پڑتا تھا۔

ہمیں بتایا گیا تھا کہ اُستاد ہمارے رُوحانی باپ ہیں۔ لیکن روحانی تربیت کا فریضہ اکثر اُستادوں کی نظر میں رُوح میں خوف کی کاشت کرنا تھا اور یہ کام وہ لمبی چھڑیوں کے ذریعے کیا کرتے تھے۔کُچھ نرم دل اُستاد بھی تھے۔ اُن میں ایک مظہر صاحب بھی تھے جنہوں نے پنجاب یونیورسٹی میں اُسی سال ایم اے میں داخلہ لیا جب میں نے۔ اُن کی مُسکراہٹ اُسی طرح قائم تھی جیسے پہلی جماعت میں ہمارے اُستاد کے طور پر تھی۔

کڑی افغاناں میں ابتلا کا دور تین سال رہا۔ چوتھے سال مُجھے ملت جونیئر ماڈل سکول جانا پڑا-یہ ایک پرائیویٹ سکول تھا۔جماعت اسلامی والوں نے بنایا تھا۔یہاں پر جسمانی سزا منع تھی۔ اور بہت مزے کے اُستاد تھے۔چوتھی جماعت میں ہمارے اُستاد دلبر صاحب تھے۔ وہ بیت بازی کا مقابلہ بہت شوق سے کرواتے تھے اور آغاز اس طرح کرتے تھے
بسم اللہ الرحمان الرحیم
لاؤ کلہاڑا کاٹیں نیم
تُم گنجے اور ہم حکیم
ہائ سکول میں ہمیں کمال کے اُستاد ملے۔ ہمارے اُردو کے اُستاد
اسماعیل رُشدی تھے جن کا تعلق حیدر آباد دکن سے تھا۔ وہ سب طالب علموں سے سبق سُنتے تھے اور جہاں کمیُ محسوس ہوتی بولتے تھے- طالب علموں کی حوصلہ افزائی کرتے تھے اور ہوم ورک نہیں دیتے تھے۔ اُنہوں نے ہمیں بتایا کہ نقار خانے میں تُوتی کی آواز ہوتی ہی طوطی کی نہیں۔ اور تل دھرنے میں تُے کے بعد زبر ہوتی ہے زیر نہیں۔ اور گھر جا کے کھیلا کرو سکول میں پڑھا کرو۔

عبدالحکیم سرمد صاحب دیوبندی مکتبہ فکر کے تھے اور مدرسہ مظاہر العلوم سہارن پور کے پڑھے ہوئے تھے۔ اور ہندُستان کی تاریخ ، سیاست، ادب اور شاعری پر گہری نظر رکھتے تھے۔ خود بھی شاعر تھے اور بہت

دلچسپ کہانیوں سے کلاس کی توجہ قائم رکھتے تھے۔ اُنہوں نے ہمیں بتایا کہ ہندُستان کے لوگوں کا مزاج شاعرانہ ہے۔ ایک کُل ہند مقابلے میں ایک ریڑھی والے کا یہ شعر بہُت مقبول ہوا

کوٹھے پہ جو آیا مہ جبیں پہنے ہوئے دو بالی
خلقت دیکھ پُکار اُٹھی اک چاند ہے اور دو ہالے

ایک کُل ہند مُقابلے میں نوجوانوں سے ایسا فقرہ لکھنے کو کہا گیا جس میں لفظ اینڈ پانچ بار مسلسل استعمال ہو۔ ایک نوجوان نے ایک دُکاندار کی اپنے سائن بورڈ والے سے گفتگو بیان کی۔ بورڈ راما اینڈ سنز کا بنانا تھا۔ دُکاندار نے بورڈ دیکھنے کے بعد کہا۔
There is much space between Rama and and, and, and and sons.
سرمد صاحب نے ہمیں کالا پانی، مولانا قاسم نانوتوی اور تحریک آزادی ہند کے بارے میں بھی بہت کُچھ بتایا۔ یہ بھی بتایا کہ کالا پانی میں مولانا قاسم نانوتوی نماز صُبح کے وقت سوئے مدینہ دیکھ کر کہا کرتے تھے
اتنا پیغام درد کا کہیو گر صبا کوئے یار میں گُزرے
کون سی رات آن ملئے گا دن بہت انتظار میں گُزرے

ہائی سکول کے بعد میں دو سال کالج میں رہا۔ کالج میں میں اُردو اور انگریزی کے علاوہ دوسری کلاسوں میں کم ہی جایا کرتا تھا۔ ہمارے اُردو کے اُستاد عبدالمعید صاحب تھے۔ اُنہوں نے کلاس میں ایک دفعہ ایسا شعر سُنایاجو سُنتے ہی یاد ہو گیا لیکن جس پر غور کرنا ابھی تک ختم نہیں ہوا۔
خلاف شرع کبھی شیخ تھُوکتا بھی نہیں
مگر اندھیرے اُجالے میں چُوکتا بھی نہیں

کالج سے خارج ہونے کے بعد مُجھے ایک سال کے لئے مدرسہ جامع العلوم میں داخلہ مل گیا۔ وہاں انگریزی کے اُستاد ایمرسن کالج میں میرے والد کے اُستاد بھی رہے تھے۔اُنہیں میری کلاس میں کارکردگی اتنی پسند آئی کہ کہ اُنہوں نے مُجھے کہا کہ تم پری میڈیکل میں داخلہ لے لو۔ اُنہیں کیا بتاتا کہ پری میڈیکل سے جان چُھڑانے کے بعد یہاں پناہ ملی ہے۔اُن کی محبت کا جواب دلیل سے نہیں حیل و حُجت سے دیا جا سکتا تھا اور اسی طرح ایک سال پُورا کرنے کے بعد مُجھے پنجاب یونیورسٹی بی اے آنرز میں داخلہ مل گیا۔

یونیورسٹی میں حس لطافت رکھنے والے میرے اُستاد ریاض احمدخان تھے۔ میرا انگریزی کا پرچہ مُجھے اُنہوں نے گھماتے ہوئے کہا
Your paper was not so bad among many bad papers
ہمارا ایک بنگالی دوست روز دیر سے کلاس میں آتا تھا۔ پروفیسر ریاض احمد خان نے اُس کے کلاس میں داخل ہونے پر پُوچھا
Do you come from Dacca every morning?
طالب علم مُسکرا دیا اور دیر سے آنا جاری رکھا۔

سکول سے باہر میرے اُستادوں میں بہت سے بلند قامت لوگ تھے اور گلی کُوچوں سے علم کشید کرنے والے نہایت ذہین اور روایتی طور پر واجبی تعلیم رکھنے والے لوگ بھی تھے۔اُن میں عزیز الدین،نجم حسین سید،عزیزالحق، مائکل ڈینو ٹو، میکس فلیچر، اختر حمید خان، صوفی صبغت اللہ، طارق لطیف ،گریگوری رباسا، ارنسٹو سرولی، آرتھر ایش، اورمحمود ممدانی جیسے اُستاد تھے جن سے میں نے براہ راست یا بالواسطہ اپنی ذات کی گر ہیں کھولنا سیکھیں۔ اور اپنے آپ کو دیکھنا سیکھا۔ اور بہت سے دوست تھے جنہوں نے مُجھے بتایا کہ مُجھے اپنے ذہن سے مکڑی کے جالے کیسے صاف کرنے ہیں۔ اور اپنی مُحبت کی مٹھاس سے سچائی کی کڑواہٹ میرے گلے سے نیچے اُتار دی۔ کُچھ گُمنام اُستاد بھی تھے جنہوں نے مُجھے اپنے من میں جھانکنا سکھایا۔ ایک سبق جو میں نے اپنے تمام اُستادوں سے سیکھا وہ یہ تھا کہ سنگت زندگی کا رس ہے-

جے یار فرید قبول کرے سرکار وی توں سُلطان وی تُوں
ناں تاں کمتر ، کہتر، احقر، ادنا، لا شے لا امکان وی تُوں۔

باقی اُستادوں کے بارے میں الگ نشست میں بات ہو گی۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں