شمس الرحمان فاروقی نے ایک دفعہ کہا تھا علم حرف شناسی نہیں حق شناسی ہے۔ مُجھے یہ خیال اپنی تعلیم شروع ہونے کے چالیس برس بعد پتہ چلا۔ تعلیم کے بارے میں ایک دوسرا خیال یہ ہے کہ یہ سکول سے پہلے، سکول کے بعد اور سکول سے باہر حاصل ہوتی ہے۔ میں نے بھی زیادہ تر علم اسی طرح سے حاصل کیا ہے۔میری پہلی اُستاد میری اماں تھیں جنہوں نے مُجھے بولنا سکھایا۔ اور اُس کے بعد تمام تعلیم خاموشی کی زبان سے دی۔ اُنہوں نے پُورے دل سے مُجھے چاہا لیکن زبان سے ایک دفعہ بھی نہیں کہا کہ تُم مُجھے یاد آتے ہو یا تُم نے میرا دل دُکھایا ہے۔ اُن کی مُحبت کا ایک ان کہا کُلیہ تھا جو دُنیا کی ہر ماں کے من میں ہوتا ہے. “تُم خوش ہو تو میں خُوش ہوں “۔ ماں کی محبت اور دُنیا کی باقی تمام محبتوں میں یہی فرق ہوتا ہے. اسی لئے دُنیا کے تمام دیسوں کے لوگوں کا اس بات پر اتفاق ہے “ماواں ٹھنڈیاں چھا نواں “ ہر انسان باقی تمام عمر اس کھوئی ہوئی محبت کی تلاش میں رہتا ہے اور اسی تلاش سے دُنیا کا تمام ادب تخلیق ہوا ہے۔
ماں کی تعلیم میں ایک اور گہرا راز پوشیدہ ہے۔ مائیں زبان سکھاتی ہیں گرامر نہیں سکھاتیں۔ ہر انسان میں الفاظ کو سُن کر اور واقعات کو دیکھ کر لفظوں کو ملانے والے قواعد کو خود بخود سمجھنے اور استعمال کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ وہ زبان کی گرامر سمجھ بھی لیتے ہیں اور برت بھی لیتے ہیں لیکن اُسے بیان نہیں کر سکتے۔ علم اس شکل میں تمام انسانوں کے پاس ہوتا ہے۔ یہ ذہانت ہے۔ جو لوگ بظاہر لکھنا پڑھنا نہیں جانتے اُن کے پاس بھی یہ علم بہت زیادہ موجود ہوتا ہے۔ ہم اُن کے ان پڑھ ہونے کو لا علمی یا کم ذہنی سمجھنا شروع کر دیتے ہیں۔ اور اپنی لا علمی کو اُن کی لا علمی سمجھنا شروع کر دیتے ہیں۔ ماؤں کو اس قدرتی ذہانت کا علم ہوتا ہے اس لئے وہ ڈانٹ ڈپٹ کر بچوں کے لفظوں کی ادائیگی ٹھیک نہیں کرتیں۔ اپنے لفظ دُہراتی رہتی ہیں یہاں تک کہ بچہ خود ہی صحیح طریقے سے بولنا سیکھ جاتا ہے۔ُمحبت اور آزادی علم کی آبیاری کرتی ہے۔
پھر میری دادی تھیں جنہوں نے مُجھے کھیلنے کودنے اور کھانے پینے میں خوش رہنا سکھایا۔ پھر خُوشی کو کبھی باہر ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں پڑی۔ میرے تیسرے اُستاد میرے والد تھے۔ اُنہوں نے مُجھے فرق کرنا سکھایا۔ حق اور ناحق میں۔ بے حسی اور عزت نفس میں۔ ادب اور اخلاقی جرات میں۔ کتاب میں اور زندگی میں. آرام پسندی اور ذمہ داری میں۔ بول کے نہیں کر کے سکھایا۔
میں تین سال کا تھا جب میرے والد نے مُجھے پہلا سبق دیا۔ میں ماں، دادی اور بڑی بہنوں کا لاڈلا تھا۔ اُنہوں نے کبھی مُجھے ڈانٹا نہیں تھا۔ مُجھے اپنی میں سے باہر نکل کر اپنے آپ کو دیکھنے کا طریقہ نہیں سکھایا تھا۔ یہ نہیں بتایا تھا کہ وہ مُجھے اچھے یا بُرے کاموں کی بنا پر اچھا نہیں سمجھتیں کیونکہ اُن کی محبت غیر مشروط ہے۔ لیکن میں اچھے اور بُرے دونوں کام کر سکتا ہوں۔ اور مُجھے ادب اور بے ادبی میں فرق کرنا سیکھنا چاہئے۔ ادب ایکتا پیدا کرتا ہے اور بے ادبی دُوئی پیدا کرتی ہے۔ جب میں یہ سبق سیکھنے کے قابل ہو گیا تو یہ تلخ فریضہ ابا کے حصے میں آیا۔ اس سبق کو سیکھنے میں بہت تکلیف ہوئی لیکن اس ایک درد کے ملنے سے باقی سب درد دور ہو گئے۔ ہمارے ایک نوکر کا نام لال دین تھا۔ وہ بُوڑھا تھا اور اُس کی لال داڑھی تھی۔ وہ گھر سودا دینے آیا اور مُجھے اُٹھا کر چوُما تو اُس کا تھوک میرے مُنہ پر لگ گیا۔ میں نے بد تمیزی میں ایک دو کلمات کہے۔ ابا اتفاقاً اُسی وقت گھر داخل ہوئے۔ مُجھے کہا باہر جاؤ ۔ لال دین سے معافی مانگو۔ وہ بزُرگ ہے۔ اُسے نوکر نہ سمجھو۔ معافی مانگ لینا تو واپس گھر میں قدم رکھنا۔ اُس دن میری پی ایچ ڈی مُکمل ہو گئی۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں