ضعیف العمر سرکاری پنشنرز، بیوائیں اور یتیم بچے توجہ چاہتے ہیں، تحریر: محمد انور بھٹی

دنیا میری زندگی کے دن کم کرتی جاتی ہے کیوں
خون پسینہ ایک کیا ہے یہ میری مزدوری ہے

آج میں کافی عرصے کے بعد ایک بار پھرحاضر ہوا ہوں دوستوں کی خدمت میں ایک نئی تحریرکے ساتھ اپنے اُن ضعیف العمر پینشنرز، بیواؤں اور یتیم بچوں کے مسائل لیکر جو کہ نہ تو کاروباری ہیں نہ ہی منافہ خوری سے ان کا کوئی دور پرے کاتعلق رہا ہے۔ وہ صرف اور صرف ریاست اور عوام کے خدمت گار بن کر اپنی ڈیوٹیاں نہایت ایمانداری ،دیانت داری اور ذمہ داری کے ساتھ نبھاتے رہے ہیں۔ اور اپنی خدمات پیش کرکے اپنے کام کی اُجرت لیتے رہے ہیں ۔ اور اپنی اس اُجرت سےآمدنی ٹیکس دیتے رہے ہیں ۔ اور یہی وہ ملازمین ہیں جنہوں نے ایک حالیہ سروے کے مطابق تمام کاروباری،اور تمام طبقہ سے 200 فیصد بڑھ کر ٹیکس کی ادائیگی کی ہے۔

انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ کچھ ناعاقبت اندیش لوگ سرکاری ملازمت کو پھولوں کی سیج تصور کرتے ہیں ۔ سرکاری ملازمین اور ریٹائرڈ ملازمین کو ریاست پر بوجھ تصور کرتےہیں ان کو بناتا چاہتا ہوں کہ سرکاری ملازمت پھولوں کی سیج نہیں ہے یہ آرام دہ کرسی اور پینشن کا لالچ نہیں ہے ۔ بلکہ ساری زندگی قناعت پسندی اور اپنے کام سے اخلاص سے عہد وفا بھی ہے ۔ جسے یہ سرکاری ملازم نبھاتے ہیں اپنے پیاروں سے کوسوں میل دوررہ کر یہ اپنی ذمہ داریاں نبھاتے ہیں۔جہاں صاف پینے کا پانی نہ بجلی کی سہولت میسر ہوتی ہے تپتے ہوئے صحراؤں میں سنسان جنگلات میں سنگلاخ پہاڑوں میں سخت ترین گرمی کی شدت ہو یاکہ پھر ٹھٹھراتی ہوئی سردی ہو بارش ہوآندھی ہو یا طوفان ہو تمام تر موسمی شدت کے باوجود یہ اپنی ذمہ داریاں بڑی خندہ پیشانی اور ذمہ داری کے ساتھ نبھاتے ہیں ۔ اور حکومت اُن کی تنخواؤں اور پینشن میں معمولی اضافہ کرکے احسان جتلادیتی ہے ۔ لیکن کبھی بھی آج تک ایسا نہیں ہوا ہے کہ مہنگائی کی شرع سے اُس تناسب سے ان کی تنخواؤں یا پینشن میں اضافہ کیا گیا ہو درجہ چہارم سے لیکر اوپر تک کے گریٹ کا سرکاری ملازم دوران ِسروس بڑی مشکل سے اپنا گزارا کرتا ہے ۔جہاں وزیر اعظم پاکستان،چیئر مین سینٹ اور اسپیکر قومی اسمبلی سے لیکر سینیٹرز اور ممبر قومی اسمبلی کے ممبران دوہائی دیتےہوئے نظر آئیں کہ دولاکھ تین لاکھ روپے ماہانہ میں بھی اِن کا گزر اوقات گزارا کرنا بہت مشکل ہوچکا ہے ۔ تو ذرا تصور تو کیجئے کہ تیس پینتیس ہزار تنخواہ دار ملازم کیسے اپنا اور اپنی فیملی کا گزر اوقات کر پارہا ہوگا۔اور یہی وہ سوچنے کا مقام ہے کہ جب امیرریاست اور ریاست جب کسی ملازم کو اُس کے کام کے مطابق اُس کی ضروریات کے مطابق اُس کی محنت کا معاوضہ ادا نہیں کرتی تو یہی وہ وجہ بنتی ہے کہ ملک میں رشوت خوری اوربد عنوانی کا راستہ ہموار ہوتا ہے ۔ اس سلسلے میں مختلف تنظیموں کی جانب سے اِ ن کے تمام ترجائز حقوق دلوانے کے لئے ۔ صدرِ پاکستان اسلامی جمہوریہ پاکستان ، وزیر اعظم اسلامی جمہوری پاکستان ۔وفاقی وزیر پاکستان ریلوے اور محکمہ ریلوے کے تمام افسران بالاء کی توجہ کئی بار اس جانب مبذول کراچکی ہے۔ مگر نہایت ہی افسوس اور دکھ کی بات ہے کہ یو ں بار بار ان مسائل کی طرف توجہ مبذول کرانےکے باوجود کسی نے بھی اس طرف کان نہیں دھرے ہیں ۔

تمام ترمندرجہ بالاء حقائق کے پیش نظر بندہ ناچیزان ضعیف العمر پنشنرز بیواؤں اور یتیم بچوں کے جائز حقوق ان تک پہنچانے کے لئے ۔آپکی توجہ اس جانب مبذول کراتے ہوئے آپکی خدمت میں درخواست گزار ہے کہ انسانیت کے ناطے خدارا اس طرف توجہ دیجئے ان کے بارے میں کچھ سوچئےان کے چولہے بجھ چکے ہیں یہ فاقہ کُشی پر مجبور ہوچکے ہیں ۔ ان کی زندگیاں بہت اجیرن اور کھٹن ہوچکی ہیں ان کو خود کُشی کر نے پر مجبور نا کیا جائے۔ ان کو معاشرے میں عزت اور وقار کے ساتھ جینے کا حق دیا جائے۔ ان کی زندگیاں آسان بنائی جائیں ۔ اِنہوں نے اپنی زندگی کے سنہرے ماہ وسال اس ادارے کی خدمات کی انجام دہی میں قربان کئے ہیں ۔ انہوں نے اس ادارے کے پہیے کو رواں دواں رکھنے کے لئے اپنا خون اور پسینہ بہایا ہے ۔ یہ مجبور ،لاچاراور بے کش لوگ ہیں ان کی بے کشی ، لاچاری اور مجبوری کا مذاق نا اڑایا جائے۔ ان کی دی ہوئی خدمات اور قربانیوں کویوں فراموش نا کیا جائے۔اِ ن میں سے اکثریت تعداد میں لوگ درازیِ عمر اور مختلف بیماریوں کے سبب بہت کمزور ، لاغر اور محتاج ہوچکے ہیں یہ تو اب اپنے حقوق کی خاطر احتجاج کرنے کے لیئے سڑکوں اور شاہراؤں پر آنے کے قابل بھی نہیں ہیں ۔انہیں کس بات کی سزا دی جارہی ہے کہ ان کو ریٹارئرڈ ہوئے تین سال کا عرصہ بیت جانے کو ہے مگر ان کے واجبات کی ادائیگیاں نہیں کی جارہی ہیں ۔ دورانِ سروس وفات پاجانےوالے ملازمین کی بیواؤں اور یتیم بچوں کو گروپ انشورنس سے محروم رکھا گیا ہے بیواؤں کو اُن کے فنڈ کئی سال سے ادا نہیں کئے گئے ہیں ۔جس کی وجہ سے یہ خانہ بدوسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔ خدارا ان کے حال پر رحم کیجئے ۔ ان کو ان کے حقوق کی ادائیگی کا بندو بست فوری طور پر کیا جائے تاکہ یہ بھی معاشرے میں برابری کی سطع پر اپنی زندگی گزار سکیں۔

آخر میں تمام دوستوں سے اپیل ہے کہ میری یہ تحریر اگر پسندآئے تو اسے شیئر اور لائیک ضرور کیجئے گا اور کمنٹس میں جاکر اپنی قیمتی آراء سے ضرور نوازیے گا ۔ تاکہ ان مفلوک الحال لوگوں کی آواز حکام بالاء تک پہچائی جاسکے ۔

close