معاشی استحکام کا خواب کب پورا ہوگا؟ سینئر صحافی سہیل اقبال بھٹی کا کالم

وطن عزیز میں گزشتہ چار برسوں سے معیشت ، سیاست، صنعت ، سرمایہ کاری سمیت دیگر شعبوں میں جو تباہی ہوئی ہیاس کو بھی ٹھیک کرنے میں طویل عرصہ لگے گا۔ جن لوگوں نے ملکی سیاست اور معیشت کا بیڑا غرق کیا اور قوم کو مہنگائی ،لاقانونیت اوردیگر سنگین مسائل کے دلدل میں میں دھکیل دیا اب ان میں سے بیشتر لوگ آج نئی سیاسی کشتی میں سوار ہورہے ہیں۔ نئی سیاسی جماعت میں شامل ہوتے ہی یہ لوگ خود کو 9 مئی کے سیاہ ترین واقعات سے بری الذمہ قرار تو دیدیا لیکن وہ مناظر تاحیات ان کا پیچھا نہیں چھوڑیں گے۔ بظاہر وہ سنگین ترین جرائم سے بری ہوگئے مگر ان کی وجہ سے یا ان کے اکسانے سے جن نوجوانوں نے اخلاقیات اور قانون کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے سرکاری اور فوجی تنصیبات کو آگ لگائی، توڑ پھوڑ کی اور ریاست کی رٹ چیلنج کیا وہ اب قانون کے شکنجے میں پھنس چکے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ آگ لگانے اور توڑ پھوڑ کرنے والوں کو تو بلا تفریق چن چن کر پکڑا جارہا ہے لیکن جن سیاسی رہنماؤں نے ان کی ذہن سازی کی، نوجوانوں کے ذہنوں میں نفرت کے بیج بوئے اور اپنے ورکروں کو ایسے کرنے پر تیار کیا جس کی ملکی تاریخ میں مثال نہیں ملتی تو گناہگار صرف وہ غریب اور عام ورکر کیوں ٹھہرے؟ اصل منصوبہ ساز اور یا سہولت کار کیسے بے گناہ ہوسکتے ہیں؟ کیا بااثر افراد کے لیے الگ قانون ہے اورعام شہری کے لیے الگ؟ ایسا دہرا معیار کیوں؟ کیوں محض ایک پریس کانفرنس اور 9 مئی کے واقعات کی معمولی مذمت پران بااثر سیاستدانوں کو معاف کردیا جاتا ہے؟ اگر یہی قانون ہے اور یہی انصاف کے تقاضے ہیں تو پھر ان عام مجرموں کو بھی پریس کانفرنس کرنے کا موقع کیوں نہیں دیا جاتا؟

اس میں رتی بھر شک نہیں کہ چیئرمین پی ٹی آئی کی گرفتاری کے بعد مشتعل پارٹی ورکروں نے ناقابل معافی جرم کیے جن کی ان کو سزا ملنی چاہیے تاکہ وہ آئندہ کبھی ایسے حرکت کرنے کا سوچیں بھی نہیں۔ لیکن اگر سہولت کاروں اور منصوبہ سازوں کو ڈھیل کے طورپر چھوڑ دیا جاتا ہے،ان کے لیے دوسری پارٹیوں میں شمولیت کا راستہ بھی صاف کردیا جاتا ہے تو کون یہ گارنٹی دے گا کہ یہ لوگ کل کوئی اور واردات نہیں ڈالیں گے۔ جن لوگوں نے اپنے ذاتی مقاصد اور سیاست کے لیے آج غریبوں اور عام لوگوں کو ایندھن کے طور پر استعمال کیا۔ کون یہ ذمہ داری دے کہ کل وہ دوبارہ ایسا نہیں کریں گے؟

وہ جو ماتھے پر گولی کھانے لیکن پارٹی نہ چھوڑنے کے بڑے بڑے دعویٰ کررہے تھے۔ جو لوگ پی ٹی آئی چیئرمین کے لیے اپنے جان دینے کی بلند و بانگ باتیں کررہے تھے وہ کیسے ایک سیٹی پر دوسری سیاسی گاڑی میں سوار ہوئے۔ کیا صرف وفاداری تبدیل کروانے سے ملک میں سیاسی استحکام آئے گا؟ کیا نئے تجربے استحکام پاکستان پارٹی کی بنیاد رکھنے سے معیشت بہتر ہوگی؟ یا کیا صرف عام پارٹی ورکوں کو بھلی چڑھانے سے حالات بدل جائیں گے؟ یہ سوال ہرپاکستانی کے ذہن میں ہیں اور ماضی کے ایسے تجربات ، وفاداریاں تبدیل کرنے کے بے شمار واقعات اور وقتی خاموشی یا مصلحت سے کام چلے گا۔ ہرگز نہیں۔معیشت ہو یا سیاست یا پھر دیگر مسائل، ان تمام درپیش چیلنجز کے حل کے لیے سب سے ملک میں عام انتخابات کا انعقاد پہلی شرط ہے۔ انتخابات کے بعد ہی سیاسی استحکام آئے گا اور منتخب حکومت معاشی حالات پر توجہ مرکوز کرسکتی ہے۔آئندہ مالی سال کے بجٹ میں الیکشن کے لیے 42ارب روپے مختص کیے جاچکے ہیں، لہٰذا مقررہ وقت پر قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ایک ہی دن الیکشن کا انعقاد یقینی بنایاجائے۔ تقریباً ہر سیاسی جماعت کے قائدین اس بات پر متفق ہیں کہ معیشت کی بہتری کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کو سرجوڑ کر بیٹھنے کی ضرورت ہے۔خود وزیر اعظم شہباز شریف کئی بار میثاقِ معیشت کی پیش کرچکے ہیں۔ ملک کی عسکری قیادت بھی سیاسی جماعتوں کو مل بیٹھنے کا مشورہ دے چکی ہے۔ حال ہی میں سابق صدر آصف علی نے بھی معاشی استحکام کے لیے اہم مشورہ دیا۔ بظاہر ایک ہی چیز ہے جو فی الوقت بڑی سیاسی جماعتوں کو ہاتھ بڑھانے اورہاتھ ملانے سے روک رہی ہے وہ ہے الیکشن۔ ہر سیاسی جماعت عام انتخابات میں خود کو کامیاب دیکھنا چاہتی ہے مگر وہ اس وجہ سے خوفزدہ ہے کہ کہیں کوئی بڑا فیصلہ کرنے سے ان کا ووٹر یا عوامی رائے ان کے مخالف نہ ہوجائے۔ خدارا ملک کا سوچیں ، ریاست کی بہتری پر توجہ دیں۔قومی اقتصادی سروے کے ذریعے ملک کے تمام چھوٹے بڑے شعبوں کی کارکردگی عوام کے سامنے آچکی ہے۔ مہنگائی ، بے روزگاری ،غربت ، سرمایہ کاری ، امپورٹ اور ایکسپورٹ کا جو حال ہے لگتا نہیں ہے کہ یہ پاکستان کی رپورٹ ہے۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ سیاسی دنگل اور انتشار کے باعث ہم آگے جانے کے بجائے پیچھے جارہے ہیں۔ آئی ایم ایف بلیک میلنگ پر ْبھی ہم پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں جس کی وجہ سے معیشت مزید پستی میں جارہی ہے۔ ملک کا خزانہ خالی ہے اور ملک کے اخراجات اتنے ہیں ہے کہ حساب لگانا بھی مشکل ہورہا ہے۔ یہ صورتحال سیاسی لڑائی اور نفرتوں کو ختم کرنے کا تقاضا کررہی ہے۔ اگر اب بھی دیر کی گئی تو حالات بد سے بدتر ہوتے چلیں گے اور الیکشن میں جیتنے والی حکومت کے لیے اژدھا کی طرح اخراجات منہ کھولے ہوں گے لیکن اس وقت کی حکومت کے پاس کچھ نہیں ہوگا۔ اتحادی حکومت آئی ایم ایف پروگرام کے بغیر ڈانواں ڈول معیشت کو سہارا دینے کے لیے اقدامات کررہی ہے لیکن حالات اتنے برے ہیں کہ ایک زخم بھر جاتے ہے تو دوسرا رسنے لگتا ہے۔ حکومت لوگوں کو ذرائع آمدن ظاہر کیے بغیر بیرون ملک سے 1لاکھ ڈالر تک لانے کی اجازت دینے جارہی ہے جس سے امید ہے کہ اگلے مالی سال میں ڈالر کی قلت کا مسئلہ کسی حد تک حل ہوسکے گا۔اگرچہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے قوم کو امید دلائی ہے کہ استحکام کا سفر شروع ہوچکا ہے جس سے شرح نمو بڑھے گی مگر ایک بات تو واضح ہے کہ جب تک ملک میں سیاسی استحکام نہیں آئے گا معاشی استحکام کا خواب بھی پورا نہیں ہوگا۔

close