1976 کا سیلاب، قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو، عوام کے درمیان سینئر صحافی شبیر سومرو کا کالم

وہ 1976 ء کے سیلاب کے دن تھے۔ ہم لوگ عزیزوں کی شادی کے باعث اپنے قصبے سیتاروڈ سے ننھیالی گائوں جوہی آئے ہوئے تھے کہ اچانک آجانے والے سیلاب میں وہیں پھنس کر رہ گئے کیونکہ جوہی سے دادو جانے والی واحد سڑک ڈوب چکی تھی۔ جوہی میں ہمارے گھروں کے سامنے بوائز ہائی اسکول اور اس کا گرائونڈ تھا، جہاں ایک دن ہم نے دیکھا کہ مزدور ایک جگہ مٹی ڈھیر کر رہے ہیں۔ اس مٹی سے ایک گول چبوترہ بنایا گیا اور اس پر چُونے سے بہت بڑا ‘H’ بنایا گیا۔ پتا چلا کہ یہ جگہ ہیلی پیڈ ہے اور سرکاری حکام کے ہیلی کوپٹرز یہاں اتریں گے۔ یہ سن کر ہم بچوں کے جوش اور خوشی کی کوئی حد نہ رہی کہ ہم ہیلی کوپٹر کو اتنے قریب سے دیکھیں گے! ۔

دوسرے دن ہماری خوشی اس وقت ڈبل ہوگئی، جب یہ خبر سنی کہ پہلے ہیلی کاپٹر سے بھٹو صاحب آرہے ہیں۔وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی شخصیت ایسی تھی کہ بڑے تو بڑے، چھوٹے بچے تک ان کے عاشق ہوتے تھے۔ اس لیے ان کی آمد کی خوشخبری سنتے ہی بچے بڑے اور عورتیں تک اسکول کے میدان کے میں پہنچ گئیں۔ہم سے پہلے وہاں پولیس اہلکار ڈیوٹی سنبھال چکے تھے۔ ان کے آگے علاقے کے بلدیاتی نمائندے اور معززین کھڑے تھے۔ پولیس اہلکار تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد ہم بچوں کو میدان سے باہر نکالنے کے جتن کرتے تھے مگر ہم کہاں باز آنے والے تھے؟۔ آخر بھٹو آرہے تھے، کوئی مذاق تو نہیں تھا!۔

سپاہی دور سے آوازیں لگاتے ہماری طرف دوڑتے آتے تو ہم ان سے پہلے دوڑ لگالیتے اور گرائونڈ سے باہر محلے کی گلی کے کونے پر جاکر کھڑے ہوجاتے۔ جب صورتحال ایک بار پھر ‘نارمل’ ہوجاتی تو ہم آہستہ آہستہ سرکتے ایک بار پھر ہیلی پیڈ کے قریب جاکر کھڑے ہوجاتے۔ اسی آنکھ مچولی میں دادو شہر کی جانب سے ہیلی کاپٹر کے آنے کی آواز سنائی دینے لگی تو سب کی نظریں آسمان کی جانب اٹھ گئیں۔پہلی بار ہیلی کاپٹر جوہی میں اتر رہا تھا۔ جو حکام استقبال کے لیے جمع تھا، ان کو تو اندازہ تھا، اس لیے انھوں نے ہیلی پیڈ سے ذرا دور ہٹ کر اپنی ٹوپیوں پہ ہاتھ رکھ لیے تا کہ اُڑ نہ جائیں مگر عوام کو یہ پتا نہ تھا، اس لیے جیسے ہی یہ آہنی پرندہ نیچے آنے لگا تو لوگوں کی پگڑیاں اور ٹوپیاں اُڑ اُڑا گئیں اور وہ حیران پریشان ”اڑے ہی چھا؟”کرتے رہ گئے۔

خیر، ہیلی کاپٹر اترا اور دروازہ کھلا تو سب سے پہلے ملیشیا رنگ کی شلوار قمیض میں وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹواترے۔ لوگوں نے جوش سے نعرے لگانا شروع کردیے۔ بھٹوصاحب سب کو ہاتھ ہلاتے آگے آئے اور استقبال کے لیے کھڑے افسروں اور سیاستدانوں سے مل کر سیلاب کی صورتحال پوچھنے لگے۔انھیں بتایا گیا کہ سیلاب کا پانی قصبے کے بچائو بند کے ساتھ آ لگا ہے۔ ان کے ساتھ آنے والوں میں ان کے ٹیلنٹڈ کزن اور وزیر اعلیٰ ممتاز بھٹو،خوبصورت اور نوجوان وزیر تعلیم حفیظ پیرزادہ، دبنگ زمیندار غلام مصطفیٰ جتوئی، بلوچستان کے پی پی رہنمادُر محمد اوستواور دیگر شامل تھے۔ ان کے علاوہ کمشنر حیدرآباد اور ڈی سی دادو، مقامی تحصیلدار، سیاسی رہنمااور اس دور میں ضلع کونسل کے چیئرمین سید عبداللہ شاہ بھی موجود تھے۔ بھٹو صاحب نے ہیلی پیڈ کے سامنے پڑنے والی جھگیوں کی جانب رخ کرلیاتو جوہی کے تحصیلدار گھبرا گئے اور آگے بڑھ کر انھوں نے ڈی سی کے کان میں کچھ کہا۔ڈی سی عجلت میں قدم اٹھاکر کمشنر تک پہنچے اور ان کے کان میں کھسر پسر کی۔ بالآخر یہ کاناپھوسی حفیظ پیرزادہ تک پہنچی تو انھوں نے بھٹو صاحب کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلتے ہوئے انھیں کہا:
”سائیں! اِہے سامھوں بالے شاہِیُن جا گھر آہن۔۔۔ہیڈے نہ، ہوڈے ہلو”
(سائیں ! یہ سامنے تو بھنگیوں کے گھر ہیں۔۔۔ براہِ کرم اِدھر نہیں، اُدھر چلیں)
یہ سن کر بھٹو صاحب نے ان پر نہایت غصیلی نظر ڈالی اور بدستور اِسی طرف چلتے ہوئے پہلی جھونپڑی کے آگے جا کر کھڑے ہوگئے۔ وہاں ایک بوڑھی بھنگن، تین کھڑی اینٹوںکا چولھا بناکر اس پہ کالی سیاہ دیگچی چڑھائے کچھ پکا رہی تھی۔ پاکستان کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو اس بڑھیا کے سر پہ جا کر کھڑے ہوگئے اور اس سے پوچھنے لگے:
”امّاں! چھا تھی چاڑھیں؟”
(اماں! کیا پکا رہی ہو؟)
بڑھیا نے جو بھٹو صاحب اور دیگر بڑے لوگوں کو دیکھا تو گھبرا کر کھڑی ہوگئیں اور ہکلا کر بولیں:
”ابا بھُٹا! کوہر پئی ردھیاں”۔
(بھٹو بیٹا! چھولے ابال رہی ہوں)
بھٹو صاحب نے مسکرا کر پوچھا:
”اساں کھے کھارائیندیئں؟ ”۔
(ہمیں کھلائوگی؟)
اس موقع پر غلام مصطفیٰ جتوئی نے مداخلت کر کے انھیں کہا:
”سائیں! بالی آ”۔
(سائیں! یہ بھنگن ہے )
اس پر اس عظیم عوامی رہنما نے غصے سے انھیں دیکھا اور کہا:
”توھاں مغرورن کھاں تہ چنگی آ۔۔۔محنت کرے تھی کھائے”
(تم مغرور لوگوں سے تو اچھی ہے۔۔۔ محنت کر کے کھاتی ہے)
اُدھر بڑھیا نے بھٹو صاحب کی فرمائش سن کر تنکوں کی کھاری میں سے تام چینی کی پیلے رنگ والی پرانی پلیٹ اٹھائی، اسے صاف کرنے کی نیت سے اپنے میلے چیکٹ دوپٹے سے رگڑا اور ڈوئی اٹھا کر دیگچی کا ڈھکن ایک طرف کر کے چھولے نکال کر پلیٹ میں ڈالے اور بھٹو صاحب کو پیش کر دیئے۔ انھوں نے پلیٹ لے کر اسے ہلکا ہلکا ہِلانا شروع کیا تاکہ بھاپ اُڑاتے گرم چھولے کچھ ٹھنڈے ہوجائیں۔ اس کے بعد انھوں نے چھولے کھانا شروع کیے۔ سب خاموش کھڑے تھے اور ان کے چہروں پہ کراہت کے تاثرات تھے۔یہ دیکھ کر بھٹو صاحب نے پہلے حفیظ پیرزادہ کی جانب پلیٹ بڑھائی اور انھیں کہا:
”کھائیندیں؟”
(کھائوگے؟)
مگر اس نے دونوں ہاتھ اٹھا کر معذرت کرلی۔ بھٹو صاحب نے اس پر بس نہ کی اور مسکرا کرممتاز بھٹو، غلام مصطفیٰ جتوئی، دُر محمد اوستو اور دیگر کو بھی باری باری آفر کرتے رہے اور خود مزے لے لے کر چھولے کھاتے رہے۔ عام لوگ جنھیں پولیس نے گلی کے کونے پر روکا ہوا تھا، وہ یہ صورتحال دیکھ کر ہنس بھی رہے تھے اور”جیئے بھٹو” کے نعرے بھی لگا رہے تھے۔
یوں وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹونے ایک بھنگن بڑھیاکے ابالے ہوئے چھولے کھا کر ، اسے پلیٹ واپس کی اور جیب میں ہاتھ ڈال کر جتنے روپے ان کی مٹھی میں آئے، وہ بڑھیا کو دے دیئے۔ اس نے پیسے لے کر انھیں اپنے دوپٹے کے پلو میں باندھا اور پھر ہاتھ اٹھا کر انھیں دعائیں دینے لگی۔ بھٹو صاحب اپنے ساتھیوں سمیت آگے بڑھ گئے اور وہاں جمع ہونے والے لوگوں سے ان کے مسائل اور ملنے والی امداد سے متعلق پوچھنے لگے۔
یہ تھے قائدعوام جو عام لوگوں کے ساتھ عام آدمی بن جاتے تھے۔۔۔

close